جھوٹ فطرت بن چکی ہے
الا ما شا اللہ جھوٹ مسلمانوں کی پہچان اور فطرت بن چکی ہے۔ جھوٹ منافقت کی علامت ہے اور منافق مسلمانوں میں سے ہوتے ہیں۔ مومن جھوٹ نہیں بول سکتا۔ بلکہ سچ بولنے والے کو مومن کہتے ہیں۔ واللہ انشا اللہ جیسے جملوں کے بعد اگلا جملہ جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے۔ اب تو بے اعتباری کا یہ عالم ہوگیا ہے کہ جو شخص انشا اللہ بولے یقین ہوتا ہے یہ کام نہیں ہوگا۔
ایک سعودی باشندہ حصول تعلیم کے لیے برطانیہ میں مقیم تھا۔ اس نے اپنا واقعہ سنایا کہ مجھے ایک ایسی انگریز فیملی کے ساتھ ایک کمرہ کرائے پر لے کر رہنے کا اتفاق ہوا جو ایک میاں بیوی اور ایک چھوٹے بچے پر مشتمل تھی۔ ایک دن وہ دونوں میاں بیوی کسی کام سے باہر جا رہے تھے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ اگر آپ گھر پر ہی ہیں تو ہم اپنے بچے کو کچھ وقت کے لیے آپ کے پاس چھوڑ دیں؟
میرا باہر جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اس لیے میں نے حامی بھر لی وہ بچہ مجھ سے کافی مانوس تھا کچھ دیر کھیلنے کے بعد وہ مجھ سے اجازت لے کر کچن میں گیا اور تھوڑی ہی دیر بعد مجھے کسی برتن کے ٹوٹنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی بچے کی چیخ سنائی دی میں جلدی سے کچن میں گیا اور دیکھا کہ شیشے کے جس گلاس میں بچہ پانی پی رہا تھا وہ اس کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ چکا تھا اور بچہ ڈر کر اپنی جگہ سہما کھڑا تھا میں نے بچے کو تسلی دی اور کہا کہ تم پریشان نہ ہو اور امی واپس آئیں تو ان سے کہنا کہ گلاس انکل سے ٹوٹ گیا تھا پھر میں نے سوچا کہ اگلے دن ایک گلاس لا کر کچن میں رکھ دوں گا۔
یہ ایک معمولی واقعہ تھا اور میرے خیال میں پریشانی والی کوئی بات نہیں تھی، جلد ہی وہ دونوں میاں بیوی واپس آگئے اور میں نے بچے کو ان کے حوالے کر دیا وہ عورت جب کچن میں گئی اور گلاس ٹوٹا ہوا پایا تو بچے سے پوچھا بچے نے اس کو وہی بتایا جو کہ میں اس کو سمجھا چکا تھا، اسی شام کو وہ بچہ میرے پاس بہت افسردہ حالت میں آیا اور مجھے کہا کہ انکل میں نے امی کو سچ بتا دیا ہے کہ وہ گلاس آپ نے نہیں بلکہ میں نے توڑا ہے۔
اگلی صبح میں یونیورسٹی جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا کہ میرے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی میں نے دروازہ کھولا تو سامنے اس بچے کی ماں کھڑی تھی اس نے مجھے صبح بخیر کہا اور نہایت شائستگی سے میرا نام لے کر کہا کہ ہم آپ کو ایک نفیس اور شریف آدمی سمجھتے ہیں مگر آپ نے ہمارے بچے کو جھوٹ بولنے کی ترغیب دے کر اپنا وقار خراب کر لیا ہے ہم نے آج تک کسی بھی معمولی یا بڑی بات پر اپنے بچے سے جھوٹ نہیں بولا نہ کبھی اس کو جھوٹ بولنے کی ترغیب دی ہے لہذا ہم آپ کو مزید اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے برائے مہربانی آپ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اپنے لیے کسی دوسری رہائش کا بندوبست کر لیجئے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہم جنہیں کافر کہتے ہیں یہ لوگ اپنے بچوں کے ساتھ جھوٹ نہیں بولتے۔ صاف سیدھی بات کرتے ہیں۔ لارے نہیں لگاتے۔ بہانے نہیں بناتے۔ ٹرک کی بتی کے پیچھے نہیں لگاتے۔ مسلمانوں کو اللہ کی مار لگتی ہے جو کبھی کسی معاملہ میں سیدھی اور سچی کھری بات نہیں کرتے۔ انشا اللہ اور واللہ عربوں کا تکیہ کلام ہے۔ بات بات پر جھوٹی قسم کھانا، وعدہ خلافی کرنا، بد نیتی سے انشا اللہ کہنا۔ پاکستانیوں میں بھی بد نیتی سے انشا اللہ کہنے کا مرض وبا کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اب تو جو انشا اللہ کہے یقین ہوجاتا ہے کہ کام نہیں ہوگا۔ اور جو اعتماد سے صرف اتنا کہہ دے کہ آپ کا کام ہو جا ئے گا تو یقین کرنے کو جی چاہتا ہے۔
بد نیت انسان آج کل آج کل کرکے ٹالتا ہے جسے عرف عام میں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا نا کہتے ہیں۔ کام بھی نہ کیا جائے اور تعلق بھی خراب نہ ہو۔ یہ دوغلہ پن جھوٹ اور منافقانہ رویہ پاکستان میں کثیر تعداد میں دستیاب ہے۔ اس رویہ سے ہمیں شدید نفرت ہے اور یہ رویہ پاکستان کا کلچر بن چکا ہے۔ وقت کے پابند، وعدہ پورا کرنا، سیدھی بات کرنا گوروں کے اصول ہیں۔ ٹال مٹول سے کام نہیں لیتے۔ صاف جواب دے دیں گے اور ہمیں صاف بات کرتے موت پڑتی ہے۔ گول مول ٹال مٹول لارا لپہ ٹیڑھی بات ذو معنی گفتگو یعنی تعلقات اور معا ملات بد نیتی پر مبنی ہوتے ہیں۔ خود کو دانشور عالم فاضل لکھاری کہلانے والوں کا بھی یہی حال ہے۔ جھوٹ بولتے ہیں۔ ٹی وی اور اخبارات میں جب لکھتے بولتے ہیں تو لگتا ہے سارا ایمان انہوں نے ہی گھوٹ کر پی رکھا ہے لیکن عملی زندگی میں انتہائی خود غرض اور مفاد پرست پائے جاتے ہیں۔
پاکستان میں سچ اب صرف پیسہ ہے۔ پیسے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ تعلقات رشتے سب ڈیجیٹل پر چل رہے ہیں۔ انٹر نیٹ فیس بک سوشل میڈیا سمارٹ فون کی دنیا میں رہنے والوں کی زندگی مصروف ترین ہے۔ بیت الخلا میں نیٹ میسر آگیا تو بھلے گرمی کی شدت سے جان نکل جائے بس سگنل ملنے چاہئیں۔ زندگی کے تمام معاملات تعلقات ڈیجٹل پر بھگتا دئیے جاتے ہیں۔ کسی کی ماں مر جائے باپ۔ ڈیجیٹل تعزیت۔ کسی کے ہاں خوشی کی خبر ہو ڈیجیٹل مبارک۔ کسی کا سر پھٹ جائے ڈیجیٹل عیادت۔ شب برات پر ڈیجیٹل معافی نامے بھیجے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے پاکستانیوں سے زیادہ مصروف قوم دوسری کوئی نہیں۔ کاہلی سستی کے مارے رشتے ناطے رواداری ریت روایت اقدار میل ملاپ سب کچھ بھولتے جا رہے ہیں۔
جن کا دل دکھایا ہے معافی مانگ کر آؤ لیکن سمارٹ فون پر ایک پیغام میں سب کو بھگتا دیا جاتا ہے۔ چل کر جانے کا تردد اغراض و مفادات سے وابستہ ہوگیا ہے۔ جس سے کام پڑ جائے اس کی ماں تو درکنار پھو پھی کا افسوس کرنے بھی پہنچ جائیں گے۔ بلا مقصد سلام دعا رکھنے کے قائل نہیں۔ بغیر غرض اور مفاد کے کسی کا فون رسیو کرنا پسند نہیں کیا جاتا۔ جھوٹ رزق کو کھا جاتا ہے۔
کروڑوں کمانے والوں کو بھی پریشان ہی دیکھا ہے۔ کبھی بچپن میں سنا کرتے تھے کہ سیاستدان جھوٹ بولتے ہیں لیکن اب تو جھوٹ جیسے وبا اور فیشن بن چکاہے۔ مسلمان دنیا میں جہاں گئے جھوٹ کا کلچر ساتھ لے کر گئے۔ مسلمان جھوٹ بول سکتا ہے، کافر جھوٹ بول سکتا ہے لیکن مومن جھوٹ نہیں بول سکتا۔ اور مومن ہر مذہب میں موجود ہوتے ہیں۔