اک واری فیر؟
سابق وزیراعظم نواز شریف سعودی عرب سے آج ہفتے کی صبح خصوصی طیارے کے ذریعے پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ نواز شریف کو دبئی ائیرپورٹ پر حکام کی طرف سے خصوصی پروٹوکول دیا گیا۔ شیر اک واری فیر؟ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے نکالا تو آمریت کی دس سالہ دہشت نے مہر ثبت کردی تھی کہ نواز شریف کی سیاست " مک گئی جے" اب کبھی واپس نہیں آئے گا مگر ایک نئی مقبولیت اور طاقت سے واپس آیا بھی چھایا بھی۔ پھر خفیہ آمریت کے ہاتھوں نکالا گیا پھر آرہا ہے اور چھا رہا ہے۔
مقبولیت اگر اقتدار کا نام ہے تو عمران کو رو رو کے ایک بار نصیب ہوا پھر وہ بھی مکافات عمل کی نذر ہوگیا اور نواز شریف بار بار بلکہ تاریخ پاکستان میں سب سے زیادہ بار اقتدار پانے والا حکمران بن چکا ہے۔ میاں نواز شریف تین بار 1990ءتا 1993ء، 1997ءتا 1999ءاور 2013ءتا 2017ءوزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر فائز رہے۔ اس سے پہلے 1985ءتا 1990ءوزیر اعلیٰ پنجاب رہے۔ زرداری دور حکومت میں بھائی میاں شہباز شریف وزیر اعلی رہے اور حال ہی میں ڈیڑھ برس وزیر اعظم رہے، یعنی میاں نواز شریف کی جماعت نے اس ملک پر چھ مرتبہ اقتدار دیکھا ہے اور اب ساتویں مرتبہ اقتدار کی جانب گامزن ہے۔ دو مرتبہ جلا وطنی دیکھی اور ہر مرتبہ ایک نئی طاقت سے وطن واپس آئے۔
مقبول کسے کہتے ہیں؟ بیساکھیوں ترلوں سے فقط ایک بات شیر وانی پہننے والے کو یا بار بار شیروانی پہننے والوں کو؟ مقبول وہ ہوتا ہے جو بار بار اقتدار پاتا ہے یا وہ مقبول ہوتا ہے جو چوبیس سالہ سیاست میں فقط ایک بار کرسی پر بیٹھا؟ اور وہ بھی انہی کے کاندھوں پر سوار ہو کر جن کا طعنہ پہلوں کو دیا کرتا تھا؟ میاں نواز شریف جتنی مرتبہ نکالا گیا اس سے زیادہ طاقت سے واپس لوٹا۔ تبدیلی زدہ برین واش عاشق کہتے تھے خدا خان کے ساتھ ہے۔ ہوا بھی خان کے حق میں ہے۔ عروج اور ہوا رب کی ایک " کن " کی محتاج ہیں۔
رعونت اور برین واشنگ میں اتنی دور مت نکل جاؤ کہ رب کی ایک " کن " یہی ہوا تمہارے خلاف چلا دے اور تکبر کے تمبو اکھیڑ پھینکے۔ پھر " کن فیکون " کی ہوا نے سب کچھ اڑا کر رکھ دیا اور اسی " نکالے " ہووے کو ایک مرتبہ پھر واپسی کا حیران کن موقع فراہم کر دیا۔ چور چور کا بیانیہ اپنی موت آپ دفن ہو چکا ہے۔ نواز شریف پھر آرہا ہے۔ گالم گلوچ فحاشی تکبر کا کلچر بھول گیا تھا کہ خدا سب کا ہے۔ بار بار نکالنے والے بھول جاتے ہیں کہ وقت بڑا ظالم ہے۔ کبھی کبھار اپنا تھوکا ہی چاٹنا پڑتا ہے۔
آج یہ عمران نیازی کا تکبر ہی ہے جو اس کو تنہا کر گیا، رعونت اور تکبر کا نام نہاد رہنما، خود پرستی اور بدمستی کے نشے میں دھت ایک شخص خدابنا بیٹھا تھا۔ لیکن بھول گیا تھا کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اس متکبر شخص نے کسی کی عزت کا خیال کیا نہ ہی وطن عزیز کی ساکھ کا۔ دراصل جو جس کی طاقت ہوتی ہے وہی اس کی کمزوری ہوا کرتی ہے۔ جب زمان پارک میں نہتی پولیس پر انہوں نے پٹرول بم پھینکے اور 9 مئی کو ریاستی قوت کی علامت عمارتوں کو جلایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر جیالے ایسا کرتے تو گریٹ بھٹو بچ جاتے۔
کاش ان لوگوں نے پیپلز پارٹی، ایم آر ڈی کی جدوجہد دیکھی ہوتی، کاش یہ سیاسی سماجی تاریخ سے واقف ہوتے۔ مگر انہیں بس عمران خان ملا جس کے کروڑ روپیہ فوٹو بنوانے کے لیے لوگ ہاتھوں میں رقم لیے پھرتے تھے پھر اس آسمان نے وہ وقت بھی دیکھا کہ کوئی اس کے پاس پھٹکنے کا روادار نہیں تھا۔ دراصل اس نے ریاست کے خلاف وہ جرم کیا ہے جس کا دشمن بھی سوچ نہیں سکتا تھا۔ تبدیلی تو آئی نہیں البتہ پورا ملک تبدیل ہو چکا ہے۔ اس شخص کے اندھے بہرے عشق نے عوام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ قدرت کا کرشمہ دیکھیں نواز شریف اک واری فیر آرہا ہے۔