حسد سنگین نفسیاتی مرض ہے
وہ جب بھی ملتا یہی کہتا کہ اسے اس کی بیوی کے خاندان سے خطرہ ہے۔ اس کی بیوی بری نہیں مگر اس کے بھائی میری جان لینے سے دریغ نہیں کریں گے۔ میری جائیداد ہتھیانے کے لئے میری بیوی کو اکساتے ہیں۔ کچھ برس گزرے تو وہ دن بھی آگیا جب پاکستان سے ایک روز اس نے فون کر کے کہا کہ اس کی بیوی مکمل طور پر بھائیوں کے ساتھ مل چکی ہے اور مجھ سے جان چھڑانے کے لئے یہ لوگ مجھے قتل بھی کروا سکتے ہیں۔ وہ ایک معروف آدمی تھا اور اس کی بیوی مشہور و معروف عورت تھی۔ چند برس مزید گزرے تو ایک روز میڈیا پر اس کے قتل کی خبر یں چل رہی تھیں اور حسب معمول قاتل نا معلوم تھا۔ ہماری آنکھیں بھیگ گئیں اور دل مغموم سوچ رہا تھا کہ حسد اس قدر بھی بھیانک ہو سکتا ہے؟ حسد رقابت جب حد سے تجاوز کر جائے انسان کو حیوان بنا دیتا ہے اسی لئے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مجھے اس کا ڈر بالکل نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے البتہ میں اس بات کا اندیشہ کرتا ہوں کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے دنیا کے مزوں میں پڑ کر حسد نہ کرنے لگو۔ انسان کسی نہ کسی سطح پر حسد کے کسی نہ کسی لیول میں مبتلا ہے۔ ہر انسان دوسرے انسان سے آگے بڑھنا چاہتا ہے اور کسی دوسرے انسان کو خواہ اس کا خونی رشتہ کیوں نہ ہو اپنے سے آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ دنیا میں باپ واحد وہ رشتہ ہے جو چاہتا ہے کہ اس کا بیٹا اس سے بڑا افسر بنے۔ دنیا میں پہلا قتل حسد کی بنیاد پر کیا گیا اسی لئے حسد کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حسد کا لفظ "حسدل "سے بنا ہے جس کے معنی چیچڑی ہے۔ جس طرح چیچڑی انسان کے جسم سے لپٹ کر اس کا خون پیتی رہتی ہے۔ اسی طرح حسد بھی انسان کے دل سے لپٹ کر گویا اس کا خون چوستا رہتا ہے اس لیے اسے حسد کہتے ہیں۔ جس شخص کے پاس نعمت ہو اس سے نعمت کے زوال کی تمنا کو حسد کہتے ہیں۔ وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ (سورۃ الفلق (تم کہو میں پناہ مانگتا ہوں ) حسد کرنے والے کے حسد سے جب وہ حسد کرے۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ ربّ العزت نے حسد کرنے والوں سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔
جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حسد کتنا گھنائونا جرم ہے۔ حسد بہت سنگین نفسانی مرض ہے۔ اس حسد کی وجہ سے قابیل نے ہابیل کے ساتھ خونی رشتے کا لحاظ نہیں کیا اور اپنے سگے بھائی کو قتل ہی کر ڈالا۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا: "تم حسد سے بچو، کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔" امام غزالیؐ فرماتے ہیں :"حسد اس لیے بہت بڑا گناہ ہے کہ حسد کرنے والاگویا اللہ تعالیٰ پر اعتراض کررہا ہے کہ فلاں آدمی اس نعمت کے قابل نہیں تھا اس کو یہ نعمت کیوں دی؟ اب تم خود ہی سمجھ لو کہ اللہ پر کوئی اعتراض کرنا کتنا بڑا گناہ ہوگا۔"
حاسد اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ تم میں یقینا کوئی خوبی ہے کیونکہ جس میں کوئی خوبی نہیں ہوتی اس سے کوئی حسد نہیں کرتا۔ خوبی کی پہلی پہچان یہ ہے کہ آپ کے حاسد پیدا ہوجاتے ہیں۔ اکثر ٹرکوں اور بسوں کے پیچھے لکھا ہے "حسد نہ کر محنت کر "۔ لیکن ہر نعمت محنت سے حاصل نہیں ہو تی۔ کچھ نعمتیں عطاء ہوتی ہیں۔ عطاء نعمت وہ انعام ہوتا ہے جو رنگ روپ حسب نسب عقیدہ مذہب کچھ نہیں دیکھتا بس عطا ہوجاتا ہے۔ اب یہ عطا کرنے والے کی مرضی ہے جس کو چاہے عطا کر دے۔ رب کی عطا اس کی تقسیم پر میں اور تم کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے۔ یعنی نعوذ باللہ تم رب کو بتائو گے کہ عطا کا اہل کون ہے اور کون نہیں۔ اسی لئے تو حسد کو کفر کہا جاتا ہے کہ رب کی تقسیم رب کی عطا ہے اور رب کی عطا سے انکار ظلم ہے۔ حسد کو روحانی امراض کی جڑ کہا گیا ہے۔ حسد دل کالا کر دیتا ہے اور بقول حضرت سلطان باہو
دل کالے کولوں منہ کالا چنگا جے کوئی اس نوں جانے ہْو
مونہہ کالا دل اچھا ہووے تاں دل یار پچھانے ہْو