Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Tayeba Zia
  3. Girlfriend Ka Wehshiana Qatal

Girlfriend Ka Wehshiana Qatal

گرل فرینڈ کا وحشیانہ قتل

نور مقدم کے والدین کو رات دس بجے کال آئی کہ آپ کی بیٹی کا قتل ہو گیا ہے آپ تھانہ کوہسار آ جائیں۔ پولیس انہیں جس گھر میں لے کر گئی وہ ان کے بقول ظاہر جعفر کا گھر تھا۔ انہوں نے گھر کے اندر جا کر دیکھا کہ بیٹی کو بے دردی سے تیز دھار آلے سے قتل کر کے اس کا سر جسم سے کاٹ کر الگ کر دیا گیا ہے۔ ملزم تیز دھار آلہ کہاں سے لایا؟ یعنی پہلے سے ذہن بنا کر بیٹھا تھا کہ بے وفا گرل فرینڈ کو قتل کرے گا؟ ا سلام آباد میں سفاکی سے قتل کی گئی نور مقدم نامی مقتولہ سابق سفیر کی بیٹی اور قاتل ظاہرجعفر کی گرل فرینڈ تھی۔ والدین کو بتایا کہ لاہور جا رہی ہوں جبکہ اسلام آباد اپنے بوائے فرینڈ کے گھر میں قتل پائی گئی۔ ملزم امریکی شہری اور امیروں کی بگڑی ہوئی اولاد ہے۔ باپ کو علم تھا اس کا بیٹا جنونیت میں کچھ بھی کر سکتا ہے مگر اس نے مقتولہ کو بچانے کی زحمت نہیں کی۔ مقتولہ کے والدین کو بھی علم تھا ان کی لڑکی ظاہر جعفری نامی بوائے فرینڈ کے ساتھ گھومتی پھرتی ہے۔ ملزم کو اب امریکی شہریت بھی نہیں بچا سکے گی کہ گوری چمڑی ریمنڈ ڈیوس امریکی شہری ہوتا ہے، خواہ تین پاکستانی شہری کچل ڈالے صاف نکال لیا جاتا ہے، پاکستانی امریکی شہری کے لئے امریکی قانون حرکت میں نہیں آتا۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی نیک کردار کی حامل پاکستانی خاتون امریکی جیل میں 86 برس کی سزا بھگت رہی ہے جبکہ نیویارک کی عدالت اس پر دہشت گردی کا جرم بھی ثابت نہ کر سکی اور ادھر ادھر کے الزامات کی آڑ میں ذہنی مریضوں کی جیل میں ڈال رکھا ہے۔ پاکستانی شہری کو پاکستان کے حوالے نہ کیا گیا لیکن پاکستانی سرکار نے غلامی کا حق ادا کرتے ہوئے تین پاکستانیوں کے قاتل امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کو امریکہ کے حوالے کر دیا۔ نور مقدم کا قاتل بھی امریکی شہری ہے اور ایک خاتون کے وحشیانہ قتل کا مرتکب ہواہے مگر امریکہ اسے واپس نہیں لے گا نہ معاونت کرے گا کیوں کہ قاتل ظاہر جعفر دیسی ہے اور دیسی باشندے امریکہ میں تیسرے درجے کے شہری سمجھے جاتے ہیں۔ لاکھ لبرل اور مغرب زدہ بن جائو مغرب دیسی کو اس کی اوقات پر رکھتا ہے۔ بوائے گرل فرینڈ شپ مادر پدر آزادانہ لائف سٹائل سے کوئی امریکی نہیں بن جاتا، کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا۔

لبرل ازم سے اسلامی و مشرقی اقدار کو کچلا جاتا ہے تو سوائے مکافات عمل ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ بوائے گرل فرینڈ میں جب ہنی مون پریڈ اوور ہو جاتا ہے تو لڑتے جھگڑتے ہیں اور انجام ہولناک ہوتا ہے، لڑکے گرل فرینڈ کو بلیک میل کرتے ہیں یا تشددد اور قتل کا نشانہ بناتے ہیں۔ نور مقدم سے پہلے بھی متعدد واقعات عبرت کا نشان بن چکے ہیں۔ کئی لڑکیاں قتل ہو چکی ہیں یا رسوا لیکن نہ لڑکیاں اور نہ ان کے گھر والے ہوش کے ناخن لے رہے ہیں۔ ظاہر جعفر جیسے جنونی قاتلوں کی تربیت بھی ایک ماں کی آغوش میں ہوتی ہے۔ یعنی گرل فرینڈ بننے والی بھی عورت، بوائے فرینڈ کی تربیت کرنے والی بھی عورت، تو عورت کب ہوش میں آئے گی؟ اولاد کی تربیت کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ بیٹی اور بیٹے کی تربیت برابر ہے۔ دونوں کو اسلامی و مشرقی اقدار و روایات میں پال پوس کر جوان کرے، شرم و حیا کی تربیت دے، باپ حلال کے لقمہ سے پرورش کرے، مگر جہاں حرام کھلایا جاتا ہے اور تربیت میں حرام خوری شامل ہوجاتی ہے وہاں اولاد بغیر نکاح کے تعلقات رکھتی ہے۔ والدین کی حرام کی کمائی لٹاتی ہے اور پھر جب کشش اور پیسہ ختم ہو جاتا ہے تونفرت اور مرنے مارنے کی شیطانیت غالب آجاتی ہے۔ برے کام کا نتیجہ ہمیشہ برا ہوتا ہے۔ برے کاموں میں ظالم اور مظلوم کی تفریق ہر کوئی اپنی سوچ کے مطابق کرتا ہے۔ مارنے والا ظالم کہلائے گا اور مرنے والا مظلوم۔ نور مقدم بھی بہت سی گرل فرینڈز کی طرح اپنے انجام کو پہنچ گئی اور مظلوم کہلائی۔

قاتل بھی انجام کو پہنچ جائے گا اور ظالم کہلائے گا۔ ظالم کو جب تک نشان عبرت نہ بنایاجائے گا، جنونی مریضوں کی حوصلہ شکنی نہیں ہو گی۔ پاکستان میں نہ قانون ہے نہ انصاف۔ ریپ اور قتل کے واقعات امریکہ میں ہر 65 سیکنڈ کے بعد ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی میڈیا ریپ اور قتل کے واقعات کی رپورٹنگ کرنے سے بیزار ہے، جس تیزی سے ریپ اورقتل ہوتے ہیں امریکی میڈیا کوئی اور خبر دینے کے قابل ہی نہ رہے۔ ایسی چند ایک خبریں سوشل میڈیا پر مل جاتی ہیں لیکن پاکستان میں ریپ اورقتل کے کیس کم ہیں لہٰذا نیشنل میڈیا بھی ایک واقعہ کو کئی روز بریکنگ نیوز بناسکتا ہے۔ پاکستان بشمول کرونا وائرس ابھی تک بے شمار مسائل اور واقعات سے مغرب کی نسبت بچا ہوا ہے، سرکار غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرے انصاف اور قانون کو منصف بنائے اور ان کی مدد سے شرمناک واقعات پر قابو پانے کی کوشش کرے۔ نور مقدم کے واقعہ میں بوائے فرینڈ ہی قاتل نہیں مقتولہ اور قاتل کے والدین بھی قاتل ہیں۔

Check Also

Jaane Wale Yahan Ke Thay Hi Nahi

By Syed Mehdi Bukhari