بلند و بالاپہاڑوں کی ہیرو
گزشتہ برس ستمبر 2021 میں شگر سے تعلق رکھنے والی کم عمر کوہ پیما آمنہ شگری نے والد اور بھائی کے ہمراہ 6450 میٹر بلند خسر گنگ چوٹی سر کی، خسر گنگ چوٹی پر سبز ہلالی قومی پرچم لہرا دیا۔ آمنہ شگری نے اپنی کامیابی کو مایہ ناز قومی ہیرو محمد علی سدپارہ کے نام کردیا، شگر کی پہلی لڑکی کوہ پیماکا اعزاز ملنے پر آمنہ شگری کی اس کامیابی پر عوامی حلقوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے پورے گلگت بلتستان کیلئے اعزاز قرار دیا اور حکومت سے ہر ممکن تعاون کا مطالبہ کیا۔ مگر نہ پی ٹی آئی حکومت نے توجہ دی اور نہ ادارے یا این جی او نے حوصلہ افزائی کی۔ مومنہ چیمہ فائونڈیشن کو قدرت نے آمنہ سے اچانک ملا دیا آمنہ کے مطابق لوگ طعنے دے رہے تھے کہ یہ لڑکی ہو کر پہاڑ سر کرنے جا رہی ہے۔ لوگ میرے ابو کو کہہ رہے تھے کہ بیٹی کو بے حیائی کی طرف لے جا رہے ہو۔۔
یہ کہنا ہے گلگت بلتستان کے علاقے شگر کے گاؤں حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی کمسن کوہ پیما آمنہ شگری کا، جنہوں نے اپنے والد اور بھائی کے ساتھ مل کر حال ہی میں 6400 میٹر بلند چوٹی خسر گنگ کو سر کیا ہے۔ جب ابو بھیڑ بکریوں کو پہاڑوں پر لے کر جاتے تو میں ضد کرکے ان کے ساتھ جاتی، میرے ابو کلائمبنگ ماسٹرز ہیں۔ میرا خواب تھا کہ میں بڑے بڑے پہاڑ سر کروں۔ وہاں مزے کروں تاہم نا مساعد حالات اور خواتین کے لیے روایتی ماحول ان کی راہ میں حائل ہے۔۔
مجھے پریشانی ہوئی کہ پہاڑ پر جانے کے لیے تو وسائل کی ضرورت ہوتی ہے تو میں نے ابو سے کہا کہ بغیر تیاری کے ہم کیسے جا سکتے ہیں؟ تو انہوں نے تسلی دی کہ میں جن لوگوں کو لے کر جاتا رہا ہوں۔ انہوں نے مجھے کچھ چیزیں دی تھیں اور کہا کہ باقی کا میں بندوبست کر لوں گا اور ہم جائیں گے۔ ابو نے اپنی مدد آپ کے تحت سامان اکٹھا کیا۔۔
آمنہ نے بتایا کہ روانگی سے قبل ایک غلطی کی کہ موسم نہیں دیکھا۔ جب بیس کیمپ پر پہنچے تو کافی بارشیں ہوئیں، ہوائیں بھی تیز تھیں جس وجہ سے بیس کیمپ پر دو سے تین دن انتظار کرنا پڑا۔ پھر جب موسم نارمل ہوا تو ہم کیمپ ون کی طرف چلے گئے۔ کیمپ ون پہنچے تو وہاں پر بھی موسم خراب ہوگیا۔ "دو تین دن مزید رکنا پڑا تو بہت پریشانی ہوئی، بہت افسردگی ہو رہی تھی کہ جس خواب کو میں پورا کرنے آئی ہوں اس میں اتنی مشکل آ رہی ہے موسم کب صاف ہوگا؟
یہ سوچ سوچ کر میرا دل بہت گھبرا رہا تھا اور ساتھ میں یہ بھی سوچ رہی تھی کہ جاتے وقت لوگوں نے کہا تھا کہ یہ لڑکی کر پائے گی؟ لوگوں نے طعنے بھی دیے میرے ابو کو برا بھلا کہا کہ بیٹی کو بے حیائی کی طرف لے کر جا رہے ہو، لیکن ہم نے کسی کی نہیں سنی تھی یہی وجہ تھی کہ دل میں خوف تھا کہ کہیں ناکام واپس نہ لوٹنا پڑے۔۔
کم سن کوہ پیما کا کہنا ہے کہ جب موسم صاف ہوا تو خوشی ہوئی کہ ہم اپنی منزل کو روانہ ہوسکیں گے۔ ہم نے صبح چار بجے اپنا سفر شروع کیا۔ اس وقت اتنی تیز اور یخ بستہ ہوائیں تھیں کہ محسوس ہوتاتھا یہ ہوائیں ہمیں اڑا کر لے جائیں گی۔ بے سروسامانی کا عالم یہ تھا کہ کھانے پینے کا سامان کم تھا، رسی بھی تھوڑی تھی اور ہیڈ لائٹ بھی نہیں تھیں جس وجہ سے ہمارا وقت کافی ضائع ہو رہا تھا۔۔
ہمیں 1200 میٹر رسی درکار تھی، لیکن ہمارے پاس 100 میٹر سے بھی کم تھی۔ پھر بھائی اور ابو نے کوشش جاری رکھی اور ایک دوسرے کو حوصلہ دیتے ہوئے کہ ہو جائے گا ہو جائے گا کہتے ہوئے سفر جاری رکھا۔ صبح چار بجے نکل کر ہم ساڑھے تین بجے تک خسر گنگ چوٹی کو سرکرنے میں کامیاب ہوئے۔۔
آمنہ شگری نے بتایا کہ اپنے مشن کو پورا کرکے خوشی کی انتہا ہوگئی کہ ہم نے اپنا خواب پورا کرلیا ہے۔ چوٹی پر پہنچ کر جب پاکستان کا پرچم لہرایا۔۔
15 سال کی عمر میں ہی آمنہ نے پہاڑوں کو تسخیر کرنے کے خواب کی تعبیر خسر گنگ کو سر کر کے پا لی، مگر آمنہ کہتی ہیں ان کی منزل ابھی دور ہے، کامیابی کا پہلا قدم ان کو مزید آگے جانے کا حوصلہ دے رہا ہے۔ آمنہ شگری سے ہماری ملاقات اس سال مئی 2022ء میں ان کے گائوں حیدر آباد میں ضلع شگر بلتستان میں ہوئی۔ آمنہ نے بتایا کہ غربت کے سبب میٹرک کے بعد تعلیم کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکے گی اور نہ ہی مالی وسائل کی تنگی کی وجہ سے کوء پیمائی کا جنون پورا ہو سکے گا۔ یہ سب بتاتے ہوئے دلیر لڑکی میرے کاندھے پر سر رکھ کر رو دی۔ مومنہ چیمہ فائونڈیشن نے اسے یقین دلایا کہ اللہ نے چاہا تو وہ اعلی تعلیم بھی حاصل کرے گی اور پہاڑوں کی ہیرو اپنا جنون بھی جاری رکھے گی۔ آمنہ کو امید کی کرن دکھائی دی اس نے میٹرک کر لیا اورہم سے رابطہ کی کوشش کی مگر رابطہ نہ ہو سکا۔ وہ مایوس ہو گئی مگر ہماری تلاش میں ہمت نہ ہاری۔ رب نے آمنہ کی لگن اور نم آنکھوں کی لاج رکھ لی اور ہم سے اس کی دوسری ملاقات ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن شگر سعید عراقی صاحب کے دفتر میں ہو گئی۔ آمنہ ہمیں دیکھتے ہی پھر جذباتی ہو گئی اور نم آنکھوں سے ہمارے سینے سے لگ گئی جیسے کوئی قیمتی دولت چھن جانے کے بعد اچانک مل جائے۔ مومنہ چیمہ آمنہ شگری کے خوابوں کو بھی حقیقی تعبیر دینے میں مددگار ثابت ہو گی۔ اللہ میرے ملک میں کسی بچے کو تعلیم کی دولت سے محروم نہ رکھے۔ آمین