بی بی تیرا زم زم
کعبہ کی طرف پہلی نظر پڑنے کے وقت کی کوئی متعین و مخصوص دعا نہیں ہے، اْس وقت دل میں جو دعائیں یاد آئیں وہ مانگ لی جائیں، مخصوص دعاؤں کے تعین کی وجہ سے رقتِ قلب جاتی رہتی ہے، لہٰذا ا س موقع پر جو اخروی اور دنیاوی حاجات سامنے ہوں وہ مانگ لینا چاہیے، اگر اس طرح کی دعائیں مانگ لی جائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے مستجاب الدعات بنا دے، یا اس سفر میں میری ساری دعاؤں کو قبول فرما لے تو زیادہ جامع دعا ہو گی۔
مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا ثواب ، ایک لاکھ نماز وں کے برابر ہونے کا ذکر تو احادیث میں موجود ہے، لیکن ایک گناہ، ایک لاکھ گناہ کے برابر ہونے کا ذکر روایت میں نہیں ملتا، البتہ جس طرح مسجد الحرام عبادت کا ثواب اور جگہوں سے زیادہ ہے، اسی طرح ان جگہوں پر گناہ کرنے کا وبال اور عذاب بھی زیادہ ہے۔ سری میں چلتے ہوئے بی بی حاجرہ کا صبر و استقامت تڑپا دیتا ہے۔
لق و دق صحرا بے آب وگیاہ کے باسی نہ انسان نہ چرند نہ پرند نہ درخت نہ سایہ نہ مکان ایک مضطرب بے چین بے قرار ماں اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ جس کو جب اْس کا خاوند خلیل اللہ اس صحرا میں چھو ڑ کر جا رہا تھا تو فرماں بردار بیوی نے صرف ایک دفعہ پو چھا کہ آپ مجھے اِس صحرا میں بے یار و مددگار کیوں چھو ڑ کر جا رہے ہیں اس میں کیا راز پو شیدہہے خیل اللہ نے ایک نظر بیوی اور بیٹے کو دیکھا پھر آسمان کی طرف اشارہ کیا کہ خدا کے کہنے پراور یہ سنتے ہی ماں کو قرار آگیا آہنی لہجے میں کہا اگر یہ خدا کا حکم ہے تو آپ بے فکر ہو جا ئیں اب اِس صحرا میں اللہ ہی میرا نگہبان ہو گا ماں ہا جرہ کو اپنے رب پر پورا بھروسہ تھا وہ خدا اْس کو بے یا رو مددگار نہیں چھو ڑے گا خلیل اللہ نے جا تے جا تے بھر پور نظروں سے بیوی کو دیکھا خلیل اللہ کی آنکھوں میں بہت سارے سوال تھے کہ میں تم کو تنہا چھو ڑ کر جا رہا ہوں کیسے گزارا کرو گی خود کو بچے کو کس طرح سنبھا لو گی لیکن ماں چٹا نی لہجے میں بو لی میرا خدا میرے ساتھ ہو گا یہ ماں کا خدا پر تقوی تھا اور اِسی تقوے کی بنا پر قیامت تک کے لیے امر ہو گئیں خلیل اللہ خدا کے حکم پر جا رہا تھا تھوڑی دو رجا کر رک کر با رگاہ الٰہی میں ہا تھ بلند کئے اور دعا کی (القرا ن ابراہیم 36)جب ابراہیم نے کہا اے پرور دگار تو اِس جگہ کو امن والا شہر بنا اور یہاں کے با شندوں کو جو اللہ تعالیٰ پر اور قیا مت کے دن پر ایما ن رکھنے والے ہوں پھلوں کی روزیاں دے۔
اے پروردگار میں نے اپنی کچھ اولاد اِس بے آب وگیاہ کے باسی کے جنگل میں تیری حر مت والے گھر کے پاس بسا ئی ہے۔ اے پروردگار یہ اِس لیے کہ وہ نما ز قائم رکھیں پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف ما ئل کر دے اور انہیں پھلوں کی روزیاں عنا یت فرماتا کہ یہ شکر گزاری کریں۔ اور آج اہل دنیا حیرت سے دیکھتے ہیں کہ خالق کائنات نے کس طرح خلیل اللہ کی دعا کی قبو لیت سے سرفراز کیا۔
آج مکہ امن کا شہر بھی ہے یہ زمین زرخیز نہ ہو نے کے با وجود دنیا جہاں کے شیریں پھل فروٹ اناج کی فروانی ہے سارا سال یہاں پر سیاحوں کا تانہ بندھا رہتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی محبوب بیوی اور لا ڈلے اکلو تے بیٹے کو جنگل نما صحرا میں چھو ڑ کر چلے جا تے ہیں اماں ہا جرہ ابھی سوچ وبچار میں ہی گم تھیں کہ اچانک بچہ فطری پیا س کے تحت رونا شروع کر دیتا ہے بچے کا رونا کسی بھی ماں سے برداشت نہیں ہو تا اور اگر ماں کو یہ پتہ چل جا ئے کہ اْس کا لا ڈلہ کیوں رو رہا ہے تو پھرماں اپنی جان کی پروا کئے بغیر اپنے بچے کو وہ چیز دینے کی کو شش کر تی ہے آگ برساتا سورج گر می جو بن پر خشک بنجر صحرا دور تک صحرا کی گر م ریت پھیلی ہو ئی تھی ریت کے درمیان نو کیلی چٹا نیں جنگل ہی جنگل گرم اڑتا غبا ر حشرات الارض سانپ بچھو چاروں طرف۔
اماں ہا جرہ اب پریشانی میں چاروں طرف دوڑتی ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنے لاڈلے کے لیے پانی کا بندوبست کر لے تا کہ اپنے بیٹے کی پیا س بجھا سکے بچے کی پیاس اور رونا ماں سے برداشت نہیں ہو تا اب وہ بچے کو کہاں پر لٹا ئے۔
آگ کی طرح جھلسی ریت چاروں طرف پھیلے ہو ئے حشرات الارض سانپ بچھو نو کیلی چٹانیں گرم گر دغبا ر سے گرم ریت پر لٹا تے ہو ئے ماں کا کلیجہ منہ کو آرہا تھا لیکن لٹا ئے بنا کو ئی چارہ نہ تھا آخر ننھے بیٹے کو گرم ریت پر لٹا کر پانی کی تلاش کا سفر سعی کر تی ہیں آگ برساتا سورج گرم ریت نو کیلی چٹانیں ماں اِن سب کی پروا کیے بغیر پانی کی تلاش میں صفا مروہ کی پہا ڑیوں کے درمیان سر پٹ دوڑنا شروع کر تی ہیں ماں کی ممتا جوبن پر نظر آتی ہے۔
ماں ہر حال میں اپنے بچے کے لیے پانی لا نا چاہتی ہے اب اماں ہا جرہ نے بے قراری بے چینی شدید اضطراب میں صفا و مروہ کی پہا ڑیوں کے درمیان پا نی کی تلا ش میں دوڑنا شروع کر دیا شدید گرمی تھکا وٹ پسینے کی پروا کئے بغیر ماں دوڑ رہی تھی اماں صفا مروہ کی پہا ڑیوں کے درمیان پا نی کی تلاش میں دوڑ رہی ہو تی ہیں پانی نہیں ملتا لیکن وہ پھر بھی پا نی کی امید میں لگا تا ر دوڑتی رہتی ہیں معصوم بچہ گرمی پیا س سے بے حال ہو کر اِدھر اْدھر پہلو بدلتا ہے۔
ماں اور بچے کی بے قراری اضطراب عروج پر پہنچتا ہے بو ڑھا آسمان، ہوائیں فضا ئیں۔ آسمان پر فرشتہ اور رحیم کریم پروردگار اِس منظر کو حیرت محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ماں کی بے قرار دوڑ اضطراب بے چینی دعا عرش پر دستک دے رہی ہو تی ہے ستر ماؤں سے زیا دہ شفیق پروردگار کی رحمت چھلکنے کو تیا ر ہوتی ہے۔
پانی کی تلاش میں اماں ہا جرہ صفا مروہ کے درمیان دوڑ کر چکر لگا تی ہیں جب پانی نہیں ملتا تو امید پر دوسرا چکر لگا تی ہیں پانی نہ ملنے کے باوجود ماں کی امید کی کرن نہیں بجھتی وہ بار بار صفا مروہ کی پہا ڑیوں کے درمیان دوڑتی ہیں ایک طرف ماں دوڑ رہی ہے دوسری طرف ننھا بیٹا بے چینی میں کرو ٹیں بدل رہا ہے اپنی ایڑیاں زمین پر مار رہا ہے اور ماں ہمت ہا رنے کو تیا ر نہیں ماں کا جسم پسینے میں بھیگ جاتا ہے تھکا وٹ جسم پر غلبہ پانا چاہتی ہے سانسیں پھول جا تی ہیں پریشانی بے قراری عروج پر لیکن ماں پھر بھی کو شش کر تی ہے پہا ڑیوں کے درمیان ماں کی سعی خدا کی رحمت کو بیدار کر چکی تھی ماں کی ادا اللہ کو بھا گئی تھی فرشتے کو حکم مل چکا تھا اور پھر جبرائیل امین ننھے بچے کے پاس آکر اْس جگہ اپنا پر مارتاہے جہاں بچہ بے چینی میں ایڑیاں مار رہا ہو تا ہے جیسے فرشتے نے پر مارا اور زمین سے پا نی کے چشمے ابل پڑے تھکی ہا ری پسینے میں شرابور ماں جب آتی ہے تو حیرت انگیز منظر دیکھتی ہے۔
بیٹے کے چاروں طرف پا نی ہی پانی تھا چاروں طرف سے پانی اْمڈ کر آرہاتھا ماں نے دوڑ کر بچے کو پکڑا اْسے پا نی پلا یا پھر خو د پیا پھر پا نی کو محفوظ کر نے کے لیے ادھر اْدھر سے پتھر لا کر بند باندھنے کی کو شش کر تی ہے جب پا نی کے آبشار بند نہیں ہو تے تو اماں ہاجرہ زور زور سے چلا کر کہتی ہیں اے" زم زم " پانی رک جا اور پھر اماں کے حکم پر پانی رک جا تا ہے۔ اماں ہا جرہ کی سعی اور بیٹے کی ایڑیوں سے نکلنے والا چشمہ تا قیامت سیراب ہے۔