Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Tayeba Zia
  3. Bharat Ki Aabi Jarhiyat

Bharat Ki Aabi Jarhiyat

بھارت کی آبی جارحیت

بھارت ہمیشہ سے آبی معاہدوں کی خلاف ورزی کرتا چلا آرہا ہے۔ اسے صرف 10مئی کی میزائلوں کی زبان سمجھ آتی ہے۔ بھارت کی آبی جارحیت نہ صرف بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ خطے کے امن و استحکام کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔

سندھ طاس معاہدے کو صرف باہمی منظوری سے ہی معطل یا ختم کیا جا سکتا ہے، بھارت کی طرف سے اس معاہدے کی یکطرفہ معطلی بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہوگی۔

اگر بھارت نے دریا کا پانی روکنے کی کوشش کی تو اسے پاکستان کے خلاف ایک "جنگی اقدام" کے طور پر تصور کیا جائے گا۔ پاکستان کی زراعت اور خوراک کا انحصار انہی دریاؤں پر ہے اور پانی کی بندش مہلک اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

بھارت پاکستان کو ایک صحرا بنانا چاہتا ہے۔ اس رویے کا نتیجہ ایک جوہری جنگ کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے، جو ساری دنیا کو نگل سکتی ہے۔ نریندر مودی کو خود پہ قابو رکھنا چاہئے۔ بھارت جو خطرناک کھیل کھیل رہا ہے وہ ایک جوہری جنگ کی آگ سلگا سکتا ہے۔ بھارت تین مغربی دریاؤں یعنی جہلم، چناب اور سندھ سے پاکستان کا پانی چوری کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے؟ پاکستان اور بھارت کے درمیان 19 ستمبر 1960ء میں دریائے سندھ اور دوسرے دریاؤں کا پانی منصفانہ طور پر حصہ داری کا معاہدہ ہوا، جو سندھ طاس معاہدہ کہلاتا ہے۔

بھارت کا کہنا ہے کہ وہ بجلی کی پیداوار اور آبپاشی کے لئے اس پانی پر اپنے حقوق کا استعمال معاہدے کے مطابق ہی کر رہا ہے۔ پچھلے پچاس برس سے بھارت ڈیم پہ ڈیم تعمیر کئے جا رہا ہے جبکہ پاکستان نے پانی کی کمی سے نمٹنے کے لئے کوئی منصوبہ بندی تک نہیں کی۔ ایسے میں پانی سے مکمل طور پر محروم ہونے سے بچنے کے لئے پاکستان کو کیا کرنا چاہئے؟ مختصرالمیعاد پالیسی کے طور پر بھارت کے ساتھ دریائی پانی کے جملہ مسائل کے حل کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ اگر اس میں ناکامی ہوئی تو مرحلہ وار عسکری اقدامات پہ توجہ مرکوز ہونی چاہئے، تاہم طویل المیعاد حل کے طور پہ ہمیں پائیدار آبی ذخائر کی تعمیر اور سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔

مختصر یہ کہ ہمیں سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنا ہوگا۔ ہر سال پانی کی ایک بہت بڑی مقدار سمندر میں بہہ جاتی ہے۔ برف پگھلنے سے اور مون سون کے موسم میں بارشوں سے سیلاب آتے ہیں۔ یہ پانی ضائع ہونے سے بچانا ہوگا۔ مطلب یہ کہ اس کے زیر زمین پہنچانے کا رستہ مہیا کرنا ہوگا تاکہ زیر زمین آبی وسائل کی سطح بحال ہو سکے۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ بے شمار چھوٹے بڑے آبی ذخیرے جگہ جگہ تعمیر ہونے چاہئیں۔

پانی کی ممکنہ کمی ایک ایسی ہنگامی صورتحال ہے جس کا اندازہ عوام کو ہے اور نہ ہی لیڈروں کو۔ امریکہ میں وفاق کی جانب سے آئیووا، منیسوٹا، نبراسکا اور سائوتھ ڈیکوٹا جیسی ریاستوں میں کسانوں اور فارم مالکان کو مقامی طور پر انجینئرنگ کی معلومات فراہم کرکے ہر جگہ چھوٹے چھوٹے ڈیم بنانے میں مدد دی جاتی ہے۔ وہاں واقعتاً سینکڑوں ہزاروں ایسے ڈیم ہیں جو مقامی لوگوں نے خود اپنے فائدے کے لئے اپنے ہی پیسے سے تعمیر کئے ہیں، مزدوری بھی اس میں خود ہی کی ہے اور تمام ساز و سامان بھی ان کے لئے خود مہیا کیا ہے۔ ان میں ذخیرہ شدہ پانی زیر زمین جذب ہو کر زیر زمین پانی کے ذخائر کو خشک ہونے سے بچائے رکھتا ہے۔ جن سالوں میں بارشیں کم ہوں تو پھر یہی پانی استعمال کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں ٹیوب ویلوں کا مسلسل استعمال زیرِ زمین پانی کی سطح کی کمی کا سبب بن رہا ہے اور پانی کے زیرِ زمین ذخیرے کی دوبارہ بھرائی کا بھی کوئی انتظام موجود نہیں۔ اپنی تجاویز کے حوالے سے انہوں نے اسلام آباد اور خیبر پختونخوا میں حکام سے بات کرنے کی کوشش بھی کی ہے لیکن یہاں لوگ حقائق اور مسائل کا سامنا کرنے کی بجائے شتر مرغ کی طرح گردن ریت میں دبا لینے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ "میرے پاس الفاظ نہیں کہ اس مسئلے کی سنگینی کو اجاگر کر سکوں۔ حل اس کا یہی ہے کہ حکومت اور مقامی افراد مل کر سیلابی پانی کو ضائع ہونے سے روکنے کی منصوبہ بندی کرکے سینکڑوں ہزاروں چھوٹے چھوٹے ڈیم تعمیر کریں"۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari