بے نیاز کون ؟
دنیا کی نعمتیں اس شخص پر بھی مہربان ہیں جو خدا کا قطعی یقین نہیں رکھتا بلکہ یوں لگتا ہے اللہ سبحان تعالیٰ منکرین پر کچھ زیادہ مہربان ہیں کہ آگے ان کے لئے کچھ رکھا نہیں لہٰذا انہیں اس عارضی دنیا میں ہی عطا کر دیا جائے! اخروی اور دائمی نعمتوں کے حقدار وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اس چار دن کی دنیا میں صعوبتیں اٹھائیں مگر نا شکر ی سے گریز کیا۔ مصائب و تکالیف، آزمائش و امتحان پر صبر کیا اور ہر مشکل کو آسانی کی امید پر برداشت کیا کہ اللہ سبحان تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔
اس دنیا میں انسان کی اصل آزمائش یہ ہے کہ وہ حق دیکھے بغیر تسلیم کرے۔ اگر دنیا میں جنت دیکھ لی تو آزمائش کیسی؟ اگر اللہ کا دیدار دنیا میں نصیب ہوگیا تو آخرت پر یقین کیسا؟ اگر بعد موت کا نتیجہ دنیا میں آئوٹ ہو گیا تو غیب پر یقین کیوں کر؟ اگر تقدیر کا پردہ چاک کر دیا تو بالغیب پر ایمان کیسا؟ بچہ جس روز آنکھ کھولتا ہے اگر اسی روز اس کے ماں باپ کو بتا دیا جائے کہ اس کی عمر دس یابیس برس ہو گی توکیا وہ ماں باپ سکون کے ساتھ جی سکیں گے؟
جس لڑکے کی پیدائش پر محلے بھر میں مٹھائی تقسیم کی گئی اگر اس کی تقدیر بے نقاب کر دی جائے کہ بڑا ہو کر قاتل اور لٹیرا بنے گا، کیا اس کے ماں باپ باقی زندگی سانس لے پائیں گے؟ اگر بیٹی کی پیدائش کے روز اس کا نصیب کھول دیا جائے کہ اس کو طلاق ہو گی یا جوانی میں بیوہ ہو جائے گی یا غلط نکلے گی تو کیا اس کے ماں باپ اس بچی کو"رحمت" سمجھ پائیں گے؟ یہ تو پروردگار کی مہربانی ہے کہ اس نے راز کو راز رکھا تا وقتیکہ ہونی کا وقت آن پہنچے۔
"غیب " پر ایمان میں بندے کے لئے بے حساب مصلحتیں پنہاں ہیں۔ اگر بچے کی پیدائش کے روز اس کے ماں باپ کو بتا دیا جائے کہ بچہ حاکم بنے گا، عالم بنے گا یا دولت و شہرت کمائے گا تو ماں باپ فخر اور کبر کی زندگی گزریں گے؟ اس یقین دہانی کے بعد خدا کو کون یاد کرے گے؟ خوف، خدشات، غم اور مشکلات ہی توہیں جو بندے کو بندہ خدا بنائے رکھتی ہیں۔ انسان کی فطرت میں جلد بازی، نا شکری، بے صبری اور احسان فراموشی پائی جاتی ہے۔ بلندی، ترقی کامیابی انسان کو مغرور بنا دیتی ہے اور ناکامی، امتحان، آزمائش، تکلیف اس کو اوقات یاد دلا دیتی ہے۔
خدا نے انسان پیدا کیا اور وہی اس کی خصلت سے واقف ہے۔ بے شمار رازہیں جنہیں پروردگار نے "غیب" بنا کر بندے کو دنیا سے لطف اندوز ہونے کے لئے بے فکرچھوڑ دیا اور تاکید فرما دی کہ یہ دنیا چار دن کا کھیل تماشہ ہے، تمہیں پلٹ کر میری طرف ہی آنا ہے۔ اصل آزمائش غیب پر ایمان ہے۔ ایمان کی حالت کی بالائی منزل "رضائے الٰہی" ہے جس کو یہ منزل مل گئی اس کو دنیا میں جنت مل گئی۔ مسلمان کو مومن بننے کے لئے "شہید" کے مقام کی طلب کرنی چاہئے۔"شہید " کا حقیقی مفہوم"گواہ" کاہے۔ اس سے مراد وہ مومن ہے جو ایمان کی صداقت پر اپنی زندگی کے پورے طرز عمل سے شہادت دے۔
اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑ کر جان دینے والے کو اس لئے شہید بولا جاتا ہے کہ جان دے کر ثابت کر دیتا ہے کہ وہ جس چیز پر ایمان لایا تھا اسے واقعی سچے دل سے حق سمجھتا تھا۔ اللہ سبحان تعالیٰ فرماتے ہیں "جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء اورصدیقین اورشہداء اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔ یہ حقیقی فضل ہے جو اللہ کی طرف سے ملتا ہے اور حقیقت جاننے کے لئے بس اللہ ہی کافی ہے "۔ (النساء 70) تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے؟
اللہ جو رحمان ہے، اسی نے قرآن کی تعلیم عطا فرمائی، اسی نے انسان کو پیدا کیا، اسی نے اس کو بولنا سکھایا، سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں، پودے اور درخت سجدہ کر رہے ہیں، اور اسی نے آسمان کو بلند کیا اور ترازو قائم کی، ترازو(تولتے وقت) حد سے تجاوز نہ کرو، اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تولو اور تول کم مت کرو، اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی، اس میں میوے اور کھجور کے در خت ہیں، جن کے خوشوں پر غلاف ہوتے ہیں۔۔
سبحان اللہ کیا تصویر کشی فرمائی ہے اور آگے فرماتے ہیں۔ انا پرست، ضدی، خود پسند، متکبر انسان صرف اپنی پرستش چاہتا ہے، یہ انسان چاہتا ہے کہ اللہ کی بندگی کرے تو لوگ اسے ولی اللہ سمجھیں اور دنیا داری کرے تو لوگ اس کو خوش نصیب سمجھیں۔ در حقیقت اپنے خول میں قید انسان خود فریبی کا شکار ہے۔ حرص، ہوس لالچ کو کئی لبادے اوڑھا رکھے ہیں۔ چاہتا ہے دنیا اس کی پوجا کرے، اسے نجات دہندہ تسلیم کرے، اس فانی دنیا میں اسے ہر وہ چیز مل جائے جس کی وہ تمنا کرے۔ ایسے شخص کو مفلس قرار دیا گیا ہے۔
حساب کتاب ہو گا تو گھر کے ایک ملازم کا حساب دینا مشکل ہو جائے گا اور جس انسان پر سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں انسانوں کے نان و نفقہ کا ذمہ ہو گا، اس کو حساب دینے میں کتنے برس لگیں گے؟ خوش نصیب ہے وہ شخص جس کے پاس صبر، قناعت، توکل اور شکر گزاری اور سفید پوشی کی دولت ہے۔ اصل میں غنی اور بے نیاز کون ہے۔ جس پر رب کا کرم ہو جا ئے۔ اور رب کا کرم بندے کو دونوں جہانوں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔