بیہودہ اور مصنوعی وی لاگرز

کسی وی لاگر کا کوئی ایک جملہ فقرہ انداز یا لہجہ مشہور ہو جائے بس پھر باقی مال فیک آنا شروع ہو جاتا ہے۔ اتفاق سے کوئی ایک کلپ وائرل ہوجائے بس پھر مصنوعی لہجے انداز جملے کہانیاں گھڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی مائی کوئی بابا کوئی دیہی لڑکی لڑکا حتیٰ کہ تعلیم یافتہ ڈگری یافتہ افراد بھی روزکانٹینٹ بنانے کے چکر میں بناوٹی مصالحہ جات کی تلاش میں نکلے رہتے ہیں۔ کسی اماں کی کوئی ایک آدھ سادگی وائرل ہو جائے تو اماں باقاعدہ فنکار بن جاتی ہے۔ کسی کا فیملی وی لاگ ہٹ ہوجائے تو باقی بھی اس کی نقل میں شروع ہو جاتے ہیں۔
ڈالرز اور شہرت کی ہوس میں بیوی ماں بہن بیٹی سب کو بازار میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ پست ذہن کی سوچ ان گھٹیا وی لاگز کو فالو کرنا شروع کر دیتی ہے حتی کہ یہ نشہ بن جاتا ہے۔ جس طرح عمران خان کو دیکھنا سننا اس سے متعلق وی لاگ دیکھنا نشہ کی صورت اختیار کر چکا ہے، خواہ سب جھوٹا پروپیگنڈا بک رہا ہو مگر پرستاروں کے لئے نشہ بن چکا ہے۔ پتہ انہیں بھی ہوتا ہے کہ سب جھوٹ سن رہے ہیں مگر ایڈکشن ہو چکی ہے۔ اسی طرح بیہودہ فیملی وی لاگ کے لا یعنی طرز زندگی کو فالو کرنا بھی نشہ بنتا جا رہاہے۔
اصلاحی وی لاگ سننے والے کم اور بیہودہ لا یعنی ماحول دیکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ حد سے زیادہ سوشل میڈیا یا بیہودہ وی لاگز دیکھنے والے دوسروں کی زندگیوں میں اس قدر گم ہونے لگتے ہیں کہ اپنی شخصیت اور گھریلو زندگی سے دور ہوجاتے ہیں۔ ٹک ٹاک یو ٹیوب سے راتوں رات امیر ہونے کے شارٹ کٹ نے نوجوان نسل کی ذہنی صلاحیت کو نقصان پہنچایا ہے۔ دوسروں کی شہرت اور ڈالر دیکھ کر اپنے کام سے دل اچاٹ کر بیٹھتے ہیں حالانکہ ہر چمکتی شے سونا نہیں ہوتی۔
سب جو نظر آتا ہے ویسا ہوتا نہیں۔ کچھ مشہور وی لاگرز کی بابت مصدقہ سٹوری بھی سننے کو ملتی ہے کہ ٹک ٹاک کی آڑ میں دو نمبر کاروبار ہو رہا ہے اور ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ ٹک ٹاک یو ٹیوب سے پیسہ کما رہے ہیں۔ ٹک ٹاک پر بازاری زبان اور فحش گفتگو کمائی کا ذریعہ بنا لی گئی ہے۔ سوشل میڈیا کے بے جا استعمال سے بے پناہ نفسیاتی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔
سوشل میڈیا لت کے منفی اثرات میں نیند میں خلل، ذہنی دباؤ اور اضطراب، معاشرتی تعلقات میں مسائل، تعلیمی یا پیشہ ورانہ کارکردگی میں کمی اور جسمانی صحت پر منفی اثرات شامل ہیں۔
سوشل میڈیا پر ضرورت سے زیادہ وقت گزارنے سے تنہائی، ڈپریشن اور کم خود اعتمادی جیسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے مثبت مفید اور صحتمند استعمال سے کسی کو انکار نہیں مگر ہم بات کر رہے ہیں سوشل میڈیا پر بھیڑ چال کی۔ قسمت سے کسی کا کوئی ایک آدھ وی لاگ یا چینل کامیاب ہوگیا تو اس نے اسی کو جھوٹ بھر بھر کر بیچنا شروع کر دیا اور لوگوں نے بھی اسی کو بھیڑ چال بنا لیا۔ کوئی نوجوان کسی گوری کالی جوان بوڑھی کو سوشل میڈیا پر پھانسنے میں کامیاب ہوگیا تو وہ پاکستان پہنچ گئی۔ بے جوڑ شادی ہوگئی، بس پھر تو ہزاروں لاکھوں نوجوان سوشل میڈیا پر غیر ملکی عورتوں کو پھانسنے کی بھیڑ چال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے جھوٹ نقل غلیظ گفتگو گالیاں فحش زبان لباس فحاشی بیہودگی آسانی سے بک رہی ہے۔
مقبول سے مقبول تر ہونے اور یوٹیوب سے زیادہ سے زیادہ مال بنانے کے چکر میں بیہودہ گفتگو اور ذومعنی جملوں پر مبنی ویڈیوز بنانی شروع کردیں۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ یہ ویلاگرز اخلاقیات کی تمام حدیں پھلانگتے جارہے ہیں اور انہیں روکنے والا کوئی نہیں۔ جب یوٹیوب کھولو وہی منظر سامنے آجاتا ہے جہاں ویلاگرز "روسٹنگ" کے نام پر ایک دوسرے کی پول پٹیاں کھولنے اور ایک دوسرے کو رگڑا دینے میں مصروف ہوتے ہیں۔ شاید اس لیے بھی کہ یوٹیوب پر ایسی ہی ویڈیوز اور وی لاگز دیکھنے کا رجحان زیادہ ہے۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ ویڈیو سے باہر نکل کر ایک دوسرے کے بال نوچنا شروع کر دیں۔
سب کانوں پر ہیڈ فون لگا کر اور چادر میں گھس کر بڑے مزے سے دیکھتے ہیں، کیوں کہ ان ویڈیوز میں استعمال ہونے والی گفتگو بالکل بھی اس قابل نہیں ہوتی کہ بہن بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر سنی جاسکے۔ فیملی وی لاگرز ڈرامہ بازی سے ڈیپریشن اور احساس کمتری پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔ شہرت اور ڈالر کمانے کی دوڑ میں اپنے کم سن بچوں کو بھی اداکار بنا رہے ہیں۔ جھوٹ اور فنکاری سکھا رہے ہیں۔ والدین سے ڈرامے کرارہے ہیں۔ ٹک ٹاک یو ٹیوب انسٹا گرام فیس بک ہر طرف جھوٹا پروپیگنڈا بیہودگی فحاشی اداکاری بک رہی ہے اور یہ فراڈ مال دیکھنے والے اپنے گھروں کا ماحول اس مصنوعی جھوٹی دنیا کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر راتوں رات مقبول ہونے کی چاہ نوجوانوں میں ایک خطرناک جنون بنتی جا رہی ہے۔ شہرت، لائکس اور ویوز کے پیچھے دیوانگی کی حد تک جانے والے کچھ نوجوان نہ صرف عجیب و غریب ویڈیوز بنا رہے ہیں بلکہ اپنی جانیں بھی داؤ پر لگا رہے ہیں۔

