آہ یہ تارکین وطن
جہاز کے ٹائر وطن عزیز کے رن وے پر اترتے ہی ماضی کا پہیہ گردش کرنے لگتا ہے۔ کبھی ہوائی اڈے پر سامنے ابا جی کھڑے نظر آتے تھے۔ بیٹی کو پردیس الوداع کرنے والا باپ بیٹی کی وطن آمد پر ائیر پورٹ ریسیو کرنے پہنچ جاتا تھا۔ ابا جی کا برسوں تک ریسیو کرنا اور پھر بڑھاپے اور نقاہت کے ساتھ یہ سلسلہ ڈھلتا چلا گیا اور نصف شب لینڈ کرنے والی پرواز پر آنے والی بیٹی کو ریسیو کرنے کا یہ سلسلہ آخر کار تھم گیا۔ ابا جی کے لئے گھنٹوں ائیرپورٹ انتظار کرنا مشکل ہو چکا تھا۔
کچھ عرصہ تک بڑی بہن ائیر پورٹ لینے آتی رہیں۔ امی کم کم گھر سے نکلتی تھیں۔ ائیرپورٹ سے گھر پہنچتے ہی سامنے کمرے میں صوفے پر امی دروازے پر نگاہیں جمائے انتظار کرتی پائی جاتیں۔ ہم ہینڈ بیگ ایک طرف پھینکتے ہوئے بھاگ کر امی سے بغل گیر ہو جاتے تھے۔ امی ابا جی کے چہرے کی چمک ہماری آمد کی خبر دیتی تھی۔ پردیس سے وطن لینڈ کرنے کی سب سے بڑی خوشی ماں باپ کا چہرہ دیکھنا تھا۔
وطن اب بھی آتے ہیں، بلکہ مومنہ چیمہ فاؤنڈیشن کی فلاحی خدمات کے سلسلے میں پہلے سے زیادہ چکر لگنے لگے ہیں، مگر نہ ریسیو کرنے والے ابا جی رہے نہ انتظار کرنے والی ماں رہی۔ وطن عزیز سونا سونا لگنے لگا ہے۔ پرواز آج بھی لینڈ کرتی ہے۔ مگر یہ سوچ کر ہی کہ وطن میں انتظار کرنے والے ماں باپ اب نہیں رہے دل ڈوب جاتا ہے۔ اورعلامہ اقبال کے دل کی کیفیت یاد آجاتی ہے، جب یورپ سے وطن واپسی پر ماں کو منتظر پایا کرتے تھے، پھر ماں چل بسی اور وطن لوٹے تو ماں کے مرقد پر کھڑے دل خراش کیفیات سنا ڈالیں۔
کس کو اب ہوگا وطن میں آہ میرا انتظار
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار
خاک مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آؤں گا
اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آؤں گا
اب ضرورت مندوں کی دعائیں ریسیو کرتی ہیں۔ ہمارے والد خدمت خلق کرتے کرتے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے تارکین وطن کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، حالانکہ حقیقی اہل وطن یہی لوگ ہیں۔ پردیسی بھی بولا جاتا ہے۔ جبکہ ان کی روح، سرمایہ، جذبات، دل و دماغ سب وطن میں بستا ہے۔ مر جائیں تو میت بھی اکثر وطن میں دفن ہونے آجاتی ہے۔ تارکین وطن وہ ہیں، جو بظاہر رہتے وطن میں ہیں۔ لیکن ان کا دل دماغ، مال اولاد، جذبات سب بیرون ملک میں بستا ہے اور ملک کو کرائے کا مکان سمجھ کر رہتے ہیں۔
بیرون ملک آباد پاکستانیوں کو پاکستان سے زیادہ محبت ہے۔ حالات اور مجبوریاں انہیں تارکین وطن بناتی ہیں۔ جبکہ وطن میں بسنے والے بے شمار عوام وطن کے ساتھ مخلص نہیں۔ جس کو موقع ہاتھ لگے، تارکین وطن بننے میں منٹ نہ لگائے۔ حکومت پاکستان کے مطابق تقریباً سات ملین (ستر لاکھ) پاکستانی افراد بیرون ملک مقیم ہیں، ان میں اکثریت مشرق وسطیٰ، یورپ اور شمالی امریکا میں ہے۔
پاکستانی تارکین وطن کی طرف سے وطن بھیجی جانیوالی ترسیلات زر 13 ارب ڈالر ہیں۔ پاکستان وطن بھیجی جانیوالی ترسیلات زر کے لحاظ سے دنیا میں دسویں درجہ پر ہے۔ پاکستانی تارکین وطن نوکری یا تجارت تو پردیس میں کرتے ہیں، مگر اپنی آمدنی کا ایک حصہ پاکستان ضرور بھیجتے ہیں۔ ان ترسیلات زر سے پاکستان کی معیشت کو بہت بڑا سہارا ملتا ہے۔ بلاشبہ تارکین وطن کہلانے والوں کے دل اپنے ملک کیلئے کچھ زیادہ ہی دھڑکتے ہیں۔ مال اور جذبہ وطن پر نچھاور کرنے میں بخیلی کا ثبوت نہیں دیتے۔ دھوکے بھی کھاتے ہیں، لیکن وطن لوٹنے کی آرزو دم نہیں توڑتی۔ رفاعی خدمات کیلئے بھی وطن عزیز کو مقدم رکھتے ہیں۔
بیرون ممالک مقیم ہم وطنوں کے مسائل دردناک ہیں۔ اپنوں کے ہاتھوں لٹنے کی تکلیف گو کہ سب کیلئے دردناک ہے، لیکن پردیس میں بسنے والے جب دیس میں آکر لٹُتے ہیں، تو انکی ذہنی و جذباتی حالت الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی۔ آج بھی تحریک انصاف کا کوئی وزیر کہہ رہا تھا اوورسیز پاکستانی ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔ پردیسی اس طرح کی الفاظ سنتے سنتے بوڑھے ہو گئے ہیں، مگر ان کی جان مال آج بھی وطن عزیز میں غیر محفوظ ہے۔
وطن عزیز میں نظام ہوتا روزگار اور تعلیمی مواقع موجود ہوتے، تو کوئی باہر نہ جاتا کہ اپنے گھر کی تاریکی بھی سورج ہے اور جھونپڑی بھی محل ہے۔ لیکن جو حکومت آئی پہلے سے زیادہ بادشاہ اور نواب والی آئی۔ کسی نے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش نہ کی، سب نے اقتدار کی موج لوٹی اور جو لوٹ سکا لوٹ کر چل دیا۔ اوورسیز پاکستانی زرمبادلہ کی مشین تھا اور رہے گا اور اس کا انتظار کرنے والے بھی ایک ایک کر کے قبروں میں سو جائیں گے۔