میڈیکل کالجوں کی نگرانی اہم مسئلہ
پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کو لوٹ مارکی کھلی اجازت مل گئی۔ وفاقی حکومت نے ایک آرڈینس کے ذریعے پاکستان میڈیکل کمیشن قائم کر دیا۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ختم کردی گئی۔ کونسل کے 450 ملازمین روزگار سے محروم کر دیے گئے۔ آرڈیننس کے تحت پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کو مکمل خود مختاری مل گئی۔
اب پرائیویٹ میڈیکل کالج فیس بڑھا سکیں گے۔ طلبہ سے عطیات وصول کرسکیں گے اور اپنی پسندیدہ یونیورسٹی سے منسلک ہوکر اس یونیورسٹی کے قواعد کے تحت اساتذہ کی اہلیت کا تعین کر سکیں گے۔ اب میڈیکل کالج کی انتظامیہ کو داخلے کے امتحان کے لیے طلبہ کو اضافی نمبر دینے کا اختیار حاصل ہوگا۔ اس آرڈیننس کے مطابق طلبہ کو داخلے انٹرویو پریزنٹیشن پر اضافی نمبر یا پوائنٹ مل سکیں گے۔
اس آرڈیننس کے تحت مارچ 2020کے بعد ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کا امتحان پاس کرنے والے فارغ التحصیل طلبہ کو National Licensing Test (N.L.T) پاس کرنا پڑے گا، پھر وہ پریکٹس کرسکیں گے۔ اب میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلے کے لیے پورے ملک میں ایڈمیشن Medical Dental College Admission Test ایک ساتھ ہوگا۔ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ سرکاری میڈیکل کالجوں میں داخلے ہر صوبائی حکومت کی پالیسی کے تحت ہونگے مگر پرائیوٹ کالجوں میں داخلے کی اہلیت کا پرائیویٹ میڈیکل کالج ایک سال قبل اعلان کریں گے۔
اس قانون میں گنجائش رکھی گئی ہے کہ اگر پرائیویٹ میڈیکل کالج جس یونیورسٹی سے ایکریڈیٹ ہیں، اس یونیورسٹی کی انتظامیہ داخلوں کے لیے ایک اضافی امتحان لے سکے گی۔ اب متعلقہ یونیورسٹی ہی میڈیکل کالجوں کی نگرانی کا فریضہ انجام دے گی اور متعلقہ یونیورسٹی اپنے ملحقہ کالج میں اساتذہ کی تعداد کا تعین کرے گی۔ اسی طرح پرائیویٹ میڈیکل کالج طلبہ سے لی جانے والی فیسوں کا خود تعین کریں گے، مگر آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ کالج 3 ماہ قبل فیسوں میں اضافہ کے اشتہارات اخبارات میں شایع کرنے کا پابند ہوگا۔ وفاقی حکومت کے طبی امورکے مشیر ڈاکٹر ظفر مرزا نے جو اس آرڈیننس کی تخلیق کرنے والوں میں شامل ہیں کا کہنا ہے کہ اس آرڈیننس کی بناء پر میڈیکل کی تعلیم بین الاقوامی معیارکے مطابق ہو جائے گی۔
ڈاکٹر ظفر مرزا نے اس آرڈیننس کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 1962 میں جب پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کا قیام عمل میں آیا تھا تو ملک بھر میں صرف 10 میڈیکل کالج تھے جن کی تعداد اب بڑھ کر 50 کے قریب ہوچکی ہے۔ حکومت اس قانون کے تحت ٹیچنگ اسپتالوں کی نجکاری کے خلاف احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کے خلاف سخت کارروائی کر سکے گی۔ مسلم لیگ ن کے سینیٹر جاوید عباسی نے اس بات پر افسوس کا اظہارکیا کہ قومی اسمبلی میں اکثریت کے باوجود وفاقی حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کی یوں یہ ایک عارضی عمل ہے۔
اگر سینیٹ سے یہ آرڈیننس پاس نہیں ہوگا جس کا قوی امکان ہے تو حکومت کو پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر اکثریت کی آمریت کا ہتھیار استعمال کرنا پڑے گا۔ یوں میڈیکل کی تعلیم سنگین بحران کا شکار ہو جائے گی۔ ڈاکٹروں کا مزید کہنا ہے کہ یہ آرڈیننس سپریم کورٹ کے فیصلے سے متصادم ہے۔ ڈاکٹروں کی قومی تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن جس نے ڈاکٹرکے پیشہ ورانہ حقوق کے تحفظ اور ہر شہری کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے تاریخی جدوجہد کی ہے، کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا ہے کہ اس قانون سے میڈیکل کی تعلیم تباہ ہو جائے گی۔
پی ایم اے لاہور برانچ کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر شاہد ملک نے اپنے بیان میں کہا کہ حکومت نئے طبی اداروں کے قیام کے بجائے میڈیکل کے اداروں کو تباہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس قانون کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ حکومت پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کو لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دینا چاہتی ہے۔ میڈیکل کالجوں کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ پرائیوٹ میڈیکل کالجوں میں داخلوں کو سونے کی کان میں تبدیل کرلیا گیا تھا۔ ان کالجوں کی انتظامیہ ہر سال فیسوں میں بغیر کسی تناسب کے اضافہ کرتی تھی۔ میرٹ کے علاوہ سیلف فنانس ڈویژن اور اوورسیز پاکستانیوں کے لیے نشستوں کی خرید وفروخت کا کاروبارہوتا تھا۔
یہ پرائیویٹ میڈیکل کالج پہلے میرٹ کے نام پر داخلہ فہرست لگاتے تھے۔ بہت سے والدین سرکاری میڈیکل کالجوں کے ساتھ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں بھی فارم بھرنے، پرائیویٹ میڈیکل کالج والے پہلے فہرستیں آویزاں کرنے اور والدین اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لے فیس جمع کرا دیتے تھے۔ ان طلبہ کا سرکاری کالجوں میں داخل ہوجاتا تو ان کی فیسیں عمومی طور پر واپس نہیں کی جاتیں اور خالی ہونے والی نشستوں پر زیادہ رقم کے عوض داخلہ دیا جاتا تھا۔ جب تک پی ایم ڈی سی نے ہرکالج کی سہولتوں کے مطابق نشستوں کا تعین نہیں کیا تھا تو یہ کالج والے بہت سے طلبہ کو داخلہ دیتے اور اپنی یونیورسٹی کے انرولمنٹ سیکشن کے عملے سے ساز باز کرکے مقررہ نشستوں سے زیادہ داخلے دے دیتے تھے۔
اس آرڈیننس میں میڈیکل کالج کی نگرانی کا مکمل فریضہ اس یونیورسٹی کے سپرد کیا گیا ہے جس سے یہ کالج ایکریڈیٹ ہے۔ یہ واضح طور پر Clash of Interest مفادکا ٹکراؤ ہے۔ ملک میں کئی پرائیویٹ کالج اب میڈیکل یونیورسٹیاں بن گئے ہیں۔ یوں میڈیکل یونیورسٹی اپنے ہی ادارے پر سخت قانون کیسے نافذ کرسکے گی؟
حقائق کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (P.M.D.C) پی ایم ڈی سے نے بین الاقوامی معیار کے مطابق قواعد و ضوابط تیارکیے تھے اور ان قواعد و ضوابط کو بلا تحقیق ہر میڈیکل کالج پر نافذ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر میڈیکل کالج میں نئے سال کے داخلوں کی تعداد طے شدہ تھی۔
پی ایم ڈی سی اس تعداد سے زیادہ داخلہ دینے پر جرمانہ کرتی تھی۔ پی ایم ڈی سی اساتذہ کی اہلیت، میڈیکل کالج میں لیباریٹری کی صورتحال اور ہر میڈیکل کالج کے ساتھ 400 بستروں کے اسپتال کی شرط سختی سے نافذ کرتی تھی۔ پی ایم ڈی سی نے گزشتہ 20 برسوں میں کئی میڈیکل کالجوں کے ایکریڈیشن منسوخ کیے تھے۔ کالجوں پر نئے داخلوں پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایک جامع فیصلے کے تحت پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں داخلوں کی تعداد اور فیسوں کا ڈھانچہ نافذ کیا تھا جس کی بناء پر سرکاری اور پرائیوٹ میڈیکل کالجوں میں ایک ہی انٹری ٹیسٹ کے ذریعے داخلے ہونے لگے تھے اور مقررہ نشستوں سے زیادہ نشستوں پر داخلے کی گنجائش ختم کر دی گئی۔ جسٹس ثاقب نثارکے فیصلے اور پی ایم ڈی سی کی سخت پالیسی کی بناء پر پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے سونے کے بھاؤ دولت کمانے کے راستے پر قدغن لگ گئی تھی، مگر حکومت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے پرائیوٹ کالجوں کے غیر معمولی دولت کمانے کے راستے کھول دیے۔
موجودہ حکومت صحت ہر فرد کا حق کے نعرہ تلے برسر اقتدار آئی ہے مگر اس کی پالیسیوں سے عوام دشمنی کی جھلک نظر آتی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں ڈاکٹروں کے ٹیچنگ اسپتالوں کی نج کاری کے خلاف احتجاجی مہم کو ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا۔ حکومت میڈیکل کے شعبہ کو نجی شعبے میں دینا چاہتی ہے، یوں اس پالیسی پر عمل درآمد کر رہی ہے۔
اب پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کو لوٹ مارکی کھلی اجازت دے کر ایک نیا پنڈورا بکس کھول رہی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ حکومت صحت کارڈ کے نام پر عام آدمی کو صحت کی سہولت فراہم کرنے کا دعویٰ کررہی ہے تو دوسری طرف نجی شعبہ کو لوٹ مارکی اجازت دیدی گئی ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں دوائیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں پیسے دے کر علاج، ٹیسٹ اور آپریشن کی پالیسی عام آدمی کی زندگی کو اجیرن کررہی ہے تو دوسری طرف پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کو لوٹ مارکا راستہ د ے کر کس کو خوش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کا جواب تو موجودہ حکومت کے قریبی حامیوں کے پاس بھی نہیں ہے مگر اس نئے قانون سے پرائیویٹ میڈیکل کالجز لوٹ مار کے لیے آزاد ہونگے۔