عمران خان چین کیوں جا رہے ہیں؟
دو سال کے طویل وقفے کے بعد وزیر اعظم جناب عمران خان تین روزہ دَورے پر پاکستان کے دیرینہ، مستحکم اور آزمودہ دوست ملک، چین، جا رہے ہیں۔ یہ دَورہ 3تا5فروری2022 کو محیط ہوگا۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، عاصم افتخار احمد، نے اِس ضمن میں اسلام آباد میں متعلقہ صحافیوں کو جو مختصر بریفنگ دی ہے، اگر ہم اس پر یقین کر لیں تو کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور جناب عمران خان نے اِس دَورے سے اونچی توقعات وابستہ کررکھی ہیں۔
پاکستانیوں نے تو اس دَورے پر نگاہیں جما رکھی ہی ہیں لیکن خاص بات یہ ہے کہ امریکا اور بھارت بھی اس دَورے پر اپنی نظریں مرتکز کیے ہُوئے ہیں۔ بھارتی میڈیا تو خان صاحب کے اس دَورے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لیے کئی ٹی وی پروگرام بھی نشر کر چکا ہے اور بھارتی اخبارات اس معاملے پر کئی مضامین، خبریں اور تجزیے شایع کر چکے ہیں۔
جب کبھی پاکستان کی کوئی اہم ترین شخصیت چین کے دَورے پر روانہ ہوتی ہے، امریکا اور بھارت کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اختلاف ایک طرف، عمران خان صاحب چونکہ ہم سب کے وزیر اعظم ہیں اور پاکستان کی پہچان ہیں، اس لیے ہم سب بحیثیتِ مجموعی یہی چاہیں گے کہ اُن کا یہ دَورہ ہر لحاظ سے کامیاب و کامران ہو۔ عمران خان کے دَورۂ چین کی خاطر خواہ کامیابی صرف پی ٹی آئی حکومت کی کامیابی نہیں ہوگی بلکہ یہ کامیابی سارے پاکستان اور سبھی پاکستانیوں کی شمار کی جائے گی۔
جناب عمران خان بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اُن کا یہ دَورۂ چین ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب وطنِ عزیز شدید قسم کے سیاسی و اقتصادی بحرانوں سے گزررہا ہے۔ جب ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر تیزی سے نیچے گررہے ہیں اور ان کا انحصار بھی زیادہ تر اووَرسیز پاکستانیوں کی بھجوائی گئی رقوم یا غیر ملکی قرضوں پر مشتمل ہے۔ جب پاکستانی روپیہ تنزلی کا شکار ہو کر تقریباً بے وقعت ہو چکا ہے اور مہنگائی نے پاکستانیوں کی اکثریت کا کچومر نکال دیا ہے۔
جب پاکستان کو آئی ایم ایف سے محض ایک ارب ڈالر کے قرض کے حصول کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی خود مختاری پر مبینہ طور پر کمپرومائز کرنا پڑ رہا ہے۔ جب اپوزیشن مقتدر پارٹی سے شدید ناراض ہے۔
ایسے گمبھیر اور نازک حالات میں جناب عمران خان کن جذبات اور احساسات کے ساتھ چین جا رہے ہیں، یہ اُن کا دل ہی جانتا ہے۔ خاص طور پر ایسے حالات میں جب کہ حال ہی میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی پاکستان پر کرپشن کی تحقیقاتی و تاثراتی رپورٹ نے جناب عمران خان حکومت کی چُولیں ہلا دی ہیں۔ ایسے میں ہم اپنے وزیر اعظم صاحب کے کانفیڈنس لیول کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
سادہ سا اور سامنے رکھا سوال یہ ہے کہ جناب عمران خان چین جا کیوں رہے ہیں؟ فروری2022میں چین نے اپنے دارالحکومت، بیجنگ، میں سرمائی عالمی کھیلوں (Winter Olympics) کے انعقاد کا اعلان کررکھا ہے۔ امریکا اور اس کے مغربی اتحادی ملکوں نے بوجوہ چین کی ان" ونٹر اولمپکس" کا بائیکاٹ کیا ہے۔ مغربی ممالک اور امریکا کا یہ متحدہ فیصلہ دراصل چین کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے۔
ایسے میں پاکستان نے، جو چین کا "آئرن برادر"بھی کہلاتا ہے، چین کے کندھے کے ساتھ کندھا ملانے اور چین کے ساتھ یکجہتی دکھانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ" ونٹر اولمپکس" میں چین کو عالمی تنہائی کا احساس نہ ہو (حالانکہ پاکستان کے پاس" ونٹر اولمپکس" کے لیے مطلوبہ کھلاڑی ہی نہیں ہیں)ایسے پس منظر میں جناب عمران خان بیجنگ پہنچ کر "ونٹر اولمپکس "کا افتتاح بھی کریں گے (کہ وہ عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی بھی تو رہے ہیں) اور اعلیٰ تر چینی قیادت سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔ خاص طور پر اگر چینی صدر، جناب ژی جن پنگ، سے خانصاحب کی ملاقات ہوتی ہے تو اس سے پاکستان کو کئی ثمر سمیٹنے کے مواقعے مل سکتے ہیں۔
عمران خان صاحب کا یہ دَورہ چین درحقیقت اُن کے سفارتی اعصاب اور سفارتی فنکاری کا امتحان بھی ہے۔ خاص طور پر اس پس منظر میں کہ پچھلے ساڑھے تین برسوں کے دوران پاک چین سفارتی اور اقتصادی تعلقات میں کئی اُتار چڑھاؤ آئے ہیں۔ پاک چین تعلقات پر گہری نظر رکھنے والی ہر آنکھ ان اتار چڑھاؤ کا مشاہدہ کر چکی ہے۔ جب سے عمران خان صاحب برسراقتدار آئے ہیں، اس شبے کو تقویت ملی ہے کہ پاک چین اقتصادی و سفارتی تعلقات میں محوری حیثیت رکھنے والے "سی پیک" پروگرام کو اگر شدید دھچکا نہیں لگا تو اس میں سست روی ضرور آئی ہے۔ چین کو اس کا قلق ہے۔
چین کو مبینہ طور پر اس بات کا بھی رنج ہے کہ خان صاحب کی حکومت نے (بہ امر مجبوری ہی سہی) امریکی مالیاتی اداروں کو " سی پیک" معاہدے کی خفیہ شقوں سے آگاہ کیوں کیا؟ پچھلے دو، ڈھائی برسوں کے دوران پاکستان میں کام کرنے والے چینی انجینئروں پر دہشت گردوں نے حملے بھی کیے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئٹہ اور داسو ڈیم پر کام کرنے والے درجن بھر چینی انجینئرز حملے میں مارے گئے۔
چین نے داسو ڈیم پراجیکٹ پر دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے چینی انجینئرز کا بھاری ہرجانہ بھی حکومتِ پاکستان سے طلب کر رکھا ہے۔ خان صاحب کی کابینہ کے کچھ ارکان نے، حکومت کے آغاز کے ساتھ ہی، سی پیک کے بارے میں جو منفی بیانات دیے تھے، چینی قیادت کو اس بات کا بھی رنج ہے۔
یہ جو ہمیشہ کہا جاتا رہا ہے کہ " پاک چین تعلقات سمندروں سے گہرے، پہاڑوں سے بلند اور شہد سے زیادہ شیریں ہیں "، اب اس احساس میں بوجوہ کمی آئی ہے، اور یہ کمی خان صاحب کے ساڑھے تین سالہ دَور کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پچھلے ساڑھے تین سال کے دوران پاک چین تعلقات میں قدرے ضعف آیا ہے اور یہ احساس فریقین کی اندرونی صفوں میں بھی در آیا ہے۔ ایسے دباؤ کے ماحول میں وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان بیجنگ تشریف لے جا رہے ہیں۔ یوں اس دَورے کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے کہ اِسی کی کامیابی پر پاکستان کی گرتی معیشت کی بحالی کی اُمید قائم ہے۔
خان صاحب اور اُن کے ساتھ جانے والے وفد کی کوشش ہو گی کہ "سی پیک" میں پھر سے نئی رُوح پھونکی جا سکے، چین سے کچھ بین السطور معذرتیں کی جائیں اور چینی قیادت سے 10ارب ڈالر کا قرض حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش بھی کی جائے۔
اگر چینی صدر اور چینی وزیر اعظم کے ساتھ ہمارے وزیر اعظم کی ملاقاتیں اہداف کے مطابق کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں تو پھر ہم اُمید رکھ سکتے ہیں کہ یہ تین روزہ دَورہ پاک چین اسٹرٹیجک تعلقات کی مزید اور ازسرِ نَو تقویت کا باعث بھی بن جائے گا۔
رازدانِ اندرونِ خانہ کے نزدیک مگر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اِس وقت پاک چین تعلقات میں جو مبینہ Credibility Crisisپیدا ہو چکا ہے، اُسے کیسے دُور کیا جائے؟ اِس دَورے کو کامیاب بنانے کے لیے بلاشبہ پاکستان چائنا انسٹی ٹیوٹ(PCI)اور آل پاکستان چائنیز انٹرپرائزز ایسوسی ایشن(APCEA) بھی اپنے اپنے دائرۂ کار میں رہ کر پورا زور لگا رہی ہیں۔ ہمیں اُمید رکھنی چاہیے کہ یہ کوششیں اور مساعی کامیابیوں سے ہمکنار ہوں گی۔ ان کامیابیوں ہی میں پاکستان اور پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کا مفاد پوشیدہ ہے۔