گالم گلوچ کلچر اور تھانیدار کا قتل
![](https://dailyurducolumns.com/Images/Authors/syed-badar-saeed.jpg)
پولیس میں "دبنگ افسر" کی اصطلاح اسی کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس کا غصہ ناک پر دھرا ہو، جو بات بات پر گالم گلوچ کا عادی ہو اور ماتحت عملہ کو سخت سزائیں دیتا ہو۔ ملازمین کو ان کی جائز چھٹی دینے کے لیے بھی ترلے منتیں کرانا اور دو چار چکر لگوانا معمول ہے۔
شاید اس ڈیپارٹمنٹ میں اسی کو افسری کہا جاتا ہے۔ یہاں بہت اچھے آفیسرز بھی ہیں لیکن مجموعی تاثر یہی ہے کہ اگر ماتحت کو گالیاں نہ دیں تو "حکمرانی " نہیں ہوگی۔ پولیس افسران کے اردل روم میں گالیوں کے سوا شاید ہی کچھ ہو، ماتحت کو سامنے کھڑا کرکے اس کی فائل کھولی جاتی ہے اور پھر گالیاں دے کر کمرے سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔
میں نے ایک پولیس ملازم سے پوچھا کہ اردل روم میں دی جانے والی سزاؤں میں ایک لفظ "سنشور" بھی ہے۔ یہ کیا سزا ہے؟ کہنے لگا کچھ نہیں، کمرے میں بلا کر گالیاں وغیرہ دے کر دفع کر دیا جاتا ہے۔ اکثر آفیسر تو فائل کھول کر پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ ماتحت کی پیشی کے وقت عموماً افسر کے سامنے کرسی نہیں رکھی جاتی، ماتحت سامنے کھڑے ہو کر گالیاں سنتے ہیں، صفائی پیش کرتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔ کرسی رکھی جائے تو افسر کی میز سے بہت دور رکھی جاتی ہے تاکہ ماتحت کو اپنی "اوقات " کا احساس رہے۔
ایک بار ایک ایڈیشنل آئی جی رینک کے افسر نے مختلف اضلاع کے تھانیداروں کو لائن حاضر کیا ہوا تھا۔ میں ان آفیسر کے کمرے میں کافی پی رہا تھا۔ صاحب بہادر کے کمرے میں بیٹھے ہوئے یہ احساس تک نہ ہوا کہ باہر تھانیدار لائن میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ بہرحال گپ شپ کے بعد باہر نکلا تو ایک واقف تھانیدار مل گیا۔ اس سے گفتگو کے دوران ہی اس کی باری آ گئی۔ اس نے فوراً شرٹ کا اوپری بٹن کھولا، ایک پلو پینٹ سے باہر نکالا، سینے پر لگا بیج تھوڑا ٹیڑھا کیا اور بال بگاڑ کر اپنی پولیس کیپ بھی ایک طرف جھکا لی۔
پیشی کے بعد دوبارہ ملا تو میں نے کہا آفیسر کے سامنے اچھے انداز میں جانا چاہیے تم عجیب ہو کہ ڈریس کا حلیہ بگاڑ لیا۔ ایک آنکھ دبا کر کہنے لگا: شاہ جی ان افسروں کو ایسے ہی ماتحت چاہئیں جو تھوڑے بوکھلائے ہوئے، گھبرائے ہوئے اور پاگل پاگل سے لگیں۔ پتا لگے کہ وہ صاحب اور ہم ملازم ہیں۔ ان کی انا کی تسکین کے سوا اردل روم کیا ہے؟ اگر میں فل اٹینشن ہوتا تو وہ میری فائل کھول کر اس میں سے کوئی بڑا جرم ڈھونڈنے لگ جاتے اور سزا دیتے، اب انہوں نے غصہ سے وردی ٹھیک کرائی، شرٹ کا بٹن ٹھیک کرایا، دو چار گالیاں بکیں اور دفع ہونے کا کہہ دیا۔
میری جان بچ گئی۔ پھر ہنستے ہوئے کہنے لگا ان کی یہ کمزوری اور انا کی تسکین کا طریقہ ہم سب کو پتا ہے اس لیے اب ہم بھی انہیں ایسے ہی چونا لگاتے ہیں۔ میں اس "دبنگ تھانیدار" کو دیکھتا رہ گیا جو تھانے کے علاہ افسر چلانے کا گر بھی جان چکا تھا۔ محکمہ پولیس میں گالیاں سننے والوں میں کانسٹیبل سے لے کر ڈی ایس پی رینک تک کے افسران شامل ہیں۔ گالیاں بکنے والوں میں اے ایس پی سے آئی جی رینک تک کے افسران ملوث ہوتے ہیں۔
محکمہ پولیس دو طبقات میں تقسیم ہے۔ ایک وہ جو رینکر کہلاتے ہیں، دوسری افسر شاہی یعنی پی ایس پی کلاس ہے۔ اس کلاس سسٹم نے محکمے کو برھمن اور شودر میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ یہی ڈی ایس پی سے اہلکار تک کا رینکر طبقہ گالیاں سننے کے بعد یہ گالیاں اور رویہ عوام تک پوری ایمانداری سے منتقل کرتا ہے۔ اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ گالیاں بکنے اور گالیاں سننے والوں کا تعلق عموماََ وردی فورس سے ہے۔
سول یا کلیریکل سٹاف کے ساتھ یہ رویہ کم ہی دیکھنے میں آیا ہے یا پھر انہیں "فورس" نہیں سمجھا جاتا۔ ماضی میں ایک ڈی آئی جی کو اسی وجہ سے ان کے اپنے ڈرائیور نے گولی مار دی تھی کہ صاحب ماں بہن کی گالیاں بکتے تھے اور جابر قسم کے آفیسر تھے۔ اگلے روز ایسا ہی واقعہ لاہور میں بھی پیش آیا۔ انسپکٹر سیف اللہ نیازی کا لاہور پولیس میں ایک نام تھا۔ پرانے تھانیدار تھے۔ انہیں "دبنگ تھانیدار" سمجھا جاتا تھا۔
اس دبنگ آفیسر کو اسی کے پسٹل سے ایک موٹر مکینک نے قتل کر دیا۔ اس قتل نے لاہور پولیس کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ موٹر ورکشاپ ان کی رہائش گاہ کے ساتھ تھی۔ ملزم کے مطابق وہ آتے جاتے اسے ماں بہن کی گالیاں بکتے تھے جس کے ردعمل میں اس نے انہیں قتل کر دیا۔ میں نے لاہور کے اس دبنگ تھانیدار کی لاش اس حالت میں دیکھی کہ آفیسر اور اہلکار کھڑے ہیں اور ان کے پاؤں میں تھانیدار کی لاش پڑی ہے۔
سیف اللہ نیازی جیسے تھانیدار کی موت ڈاکوؤں کے ساتھ کسی مقابلے میں شہادت کی صورت ہونی چاہیے تھی لیکن المیہ دیکھیں وہ اس حال میں ایک موٹر سائیکل مکینک کے ہاتھوں مارے گئے کہ اسلحہ بھی ان کا اپنا تھا اور وجہ بھی وہ خود بنے۔ پنجاب پولیس میں تمام تر دعووں کے باوجود سیف اللہ نیازی جیسے بے شمار تھانیدار ہیں جو وردی کے زعم میں کمزور شہریوں کی تذلیل کرتے رہتے ہیں۔ پی ایس پی کلاس کا رویہ تو اپنے ماتحتوں تک محدود ہے لیکن ڈی ایس پی سے کانسٹیبل تک کا عملہ یہ غصہ عوام پر اتارتا ہے۔
میں پنجاب پولیس کے ایسے بہت سے افسران کو جانتا ہوں جن کا ماتحت عملہ روز "صاحب" کے مرنے کی دعا کرتا ہے۔ جن پولیس افسران کے میڈیا سے بہت اچھے تعلقات ہیں اور وہ بہت ہی بردبار قسم کے افسر ظاہر ہوتے ہیں ان کی اکثریت نے بھی اپنے ماتحتوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ ایک بار ایک ایسے ایس پی سے ملنے گیا جن کی مسکراہٹ مشہور ہے، صحافیوں سے ذاتی دوستی ہے۔ ان کے عملہ سے بھی سلام دعا ہے۔
میں گیا تو عملہ سے کہا انہیں میرا بتا دیں۔ ان کے پی اے سمیت کوئی صاحب کے کمرے میں جانے یا اطلاع دینے کو تیار نہ تھا۔ ایک دوسرے کو کہنے کے بعد ان کے پی اے نے کہا آپ خود ہی چلے جائیں، آپ کے تو دوست ہیں۔ ہم صاحب کے "منہ لگے " صبح صبح گالیاں سن کر ہمارا منہ خراب ہو جائے گا۔ سابق ایڈیشنل آئی جی طارق مسعود یٰسین یاد آتے ہیں۔ انہوں نے محکمہ پولیس کی "اخلاقیات" بہتر کرنے کی بہت کوشش کی۔ اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو آج انسپکٹر سیف اللہ نیازی قتل نہ ہوتا۔ طارق مسعود یٰسین ریٹائرڈ ہو چکے ہیں لیکن محکمہ میں اب بھی کئی سیف اللہ نیازی موجود ہیں۔