ہمارے قدرتی ورثے اپنے پن کے منتظر
پاکستان میں پہاڑوں کے خوبصورت سلسلے ہیں، ہم باہر کے ممالک کے سیاحتی مقامات کی تفریح کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں لیکن ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ ہمارے اپنے ملک میں ایسے خوبصورت اور دلفریب قدرتی شاہکار ہیں کہ جنھیں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ کیا یہ پاکستان ہی ہے یا سوئٹزرلینڈ یا پھرکوئی اور مہنگا سا مغربی ملک۔
پاکستان قدرتی دولت سے مالا مال ہے یہاں قدرتی ذخائرکا خزانہ ہے لیکن بس اس خزانے کی چابی کچھ زنگ آلود سی ہے، اسے کیسے صاف کرنا ہے یہ ہمارا ہی کام ہے البتہ چابی چرانے کی کوشش میں بہت سی نادیدہ قوتیں لگی رہتی ہیں۔ اس دیس نے بہت سی قربانیوں کے بعد اپنی شناخت بنائی ہے شاید یہی وجہ ہے ہر چال خالی چلی جاتی ہے۔ ہم اپنے ملک کی، اس دھرتی کی قدرکریں حفاظت کریں، ماحول میں آلودگی پھیلا کر کچرا بکھیر کر خوبصورت قدرتی شاہکار داغ دار ہو جاتے ہیں۔
سلسلہ کوہ نمک جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ یہاں نمک کی بہت بڑی مقدار ہے جو پہاڑی چوٹیوں کی صورت میں موجود ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں کروڑوں سال پہلے سمندر تھا لیکن جب زمینی سطح کی دو پلیٹیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں تو اس تغیر سے سمندرکا رخ بدل گیا اور یہاں نمک کی پہاڑیاں وجود میں آئیں۔ اس بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ سمندرکا پانی خشک ہوگیا جس سے اس میں موجود نمک پہاڑوں کی شکل اختیار کر گیا۔
ماہرین کے مطابق پہاڑوں کے اندر تغیرات کی بھی پانی کے رخ کو بدلنے کی طاقت رکھتی ہیں، بہرحال یہ ایک قدرتی عمل ہے، سالٹ رینج پاکستان کے اس خوبصورت سیاحتی مقام کی ایک نشانی ہے کہ یہاں ماضی میں تاریخ بہت کچھ اتھل پتھل کیا، سلسلہ کوہ نمک پنجاب پوٹھوہارکے علاقے میں واقع ہے جو ایک قوس کی شکل دریائے جہلم پر ٹلہ جوگیاں اور بکڑالہ کے پہاڑوں سے شروع ہو کر دریائے سندھ تک جاتا ہے۔
تاریخ کی قدیم کتابوں میں اسے کوہ بالنات اور کوہ جودی کے نام سے لکھا گیا۔ اس خطے میں پائی جانیوالی کھیوڑہ کی کانیں اپنے رقبے اور ذخیرے کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں، یہیں کے واڑچھا اور کالا باغ کے مقام سے عمدہ خالص نمک نکلتا ہے جو "لاہوری نمک" کے نام سے مشہور ہے۔ سالٹ رینج میں بہنے والے دریا کا نام سوان ہے، یہ پورا علاقہ آثار قدیمہ کے لحاظ سے بھی بہت اہم ہے۔
کہا جاتا ہے یہاں ہندوؤں کے "مہا بھارت" کے کرداروں کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہیں پانڈو شہزادوں کی جلاوطنی اور پانچال "دروپدنگہ" کے راجا کی بیٹی کرشنا دروپدی نے اپنے شہزادے کا انتخاب کیا، گو ان داستانوں کا سرا ہماری سمجھ میں نہیں آتا لیکن یہیں قدیم تہذیب کے نمونے، گویا پہاڑوں کے اندر راز و اسرار سموئے ہوئے ہیں، اس کی بلند ترین چوٹی سکیسر ہے جو پندرہ سو بائیس میٹر بلند ہے۔
ضلع چکوال کے پہاڑوں میں تلاش کریں یا خوشاب کی خوبصورت وادیوں میں چپے چپے پر قدرتی نعمتوں کا حسن بکھرا ہے جہاں ابھی بھی سیاحت کے اعتبار سے ایسے مقامات پوشیدہ ہیں کہ جہاں تک عام لوگوں کی رسائی بھی مشکل ہے پھر غیر ملکی سیاح ایسے مقامات کا رخ کیسے کرسکتے ہیں جہاں جنگلات اور ایسی خاردار راہیں ہیں کہ جس کی وجہ سے سفر مشکل ترین بن جاتا ہے البتہ شوقین حضرات اپنی موٹرسائیکلوں پر ایسی پرخطر مہمات کو سرکر لینے کی دھن میں چلے جاتے ہیں، اگرکچھ توجہ سے ایسے مقامات کو محفوظ اور سواری کے انتظامات کو یقینی بنایا جائے تو سیاحوں کے لیے بہترین تفریح کے ساتھ روزگارکے سلسلے بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
کیرتھر ایک اور خوبصورت پہاڑی سلسلہ ہے جو سندھ کے ضلع جیکب آباد سے ہوتا ہوا کراچی تک جاتا ہے، یہ پہاڑی سلسلہ سندھ اور بلوچستان کے صوبوں کے درمیان حد بندی بھی کرتا ہے، یہ سلسلہ ایک سو نوے میل تک پھیلا ہوا ہے۔ سندھ میں کیرتھر نیشنل پارک کے نام سے ایک وسیع وائلڈ لائف کا خزانہ ہے، بحیرہ عرب تک پھیلی ہوئی کیر تھرکی پہاڑیوں کا سلسلہ کراچی میں خاصا پہاڑیاں اور ملری پہاڑیاں کی صورت میں نظر آتا ہے، انھی پہاڑیوں کے درمیان دریائے گنج اور حب دریا بھی بہتا ہے۔ کیرتھر پہاڑیوں کا سب سے اونچا پہاڑ زردک جو 2260 میٹر بلند ہے جب کہ دوسرے نمبر پر براغ پہاڑی جو 2151 میٹر بلند ہے۔
اسی سلسلے میں ایک مقام "کتے کی قبر" بہت مشہور ہے جو دراصل ایک کتے کی وفاداری کی کہانی سناتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص کو اپنے قرضے کی ادائیگی کے لیے اپنے کتے کو ایک ہندو بنیے کے سپردکرنا پڑا، اس بنیے کا کچھ سامان چرانے والے چوروں کا پیچھا کرنے کے اور پکڑوانے پر خوش ہو کر بنیے نے کتے کو آزاد کردیا اور جب کتا اپنے مالک کے پاس پہنچا تو مالک کو خیال گزرا کہ شاید کتا اپنے نئے مالک سے فرار پا کر بھاگ کر لوٹ آیا ہے وہ اس کی حکم عدولی پر کتے سے بہت ناراض ہوا اور اس نے کتے کو دھتکار دیا۔
کتا مالک کے اس بدلے رویے پر دل برداشتہ ہو کر مر گیا اور جب مالک کو سچی بات کا علم ہوا تو وہ اپنے کیے پر بہت نادم ہوا اور اس نے پہاڑی کی چوٹی پر اس کی ایک یادگار قبر بنائی۔ کیرتھر کی پہاڑیاں تاریخی مقامات سے پُر ہیں، یہاں سندھی، بلوچی قبیلوں کے مختلف قبائل آباد ہیں، جن میں چھٹا، برفت، بزدار، لُنڈ، لاشاری، چانڈیو، مری، گبول، نوحانی اور بگٹی وغیرہ شامل ہیں جن کی اپنی اور کچھ ملتی جلتی روایات و ثقافتیں آباد ہیں۔
ان پہاڑیوں میں جپسم، چونے اور دیگر معدنیات کے علاوہ نایاب اقسام کے جانور جن میں خاص کر چکارا ایک خاص قسم کا پہاڑی بکرا جو پہاڑوں پر قلانچیں بھرنے میں ماہر ہے شامل ہے، شہر سے دور یہ پہاڑی سلسلے پھر بھی پرسکون اور اپنے خوبصورت ماحولیاتی نظام کے باعث دلفریب بھی ہیں لیکن شہر کے اندر اسی پہاڑی سلسلے کا ایک چھوٹا "خاصا پہاڑی سلسلہ" جو کراچی کے اورنگی اور نارتھ ناظم آباد کے درمیان قائم ہے۔ انتہائی شمال میں اس پہاڑی سلسلے کی انتہائی اونچائی 528 میٹر بلند ہے۔
اورنگی اور نارتھ ناظم آباد کے درمیان "خاصا پہاڑی سلسلے" کی ایک حد ہے۔ دو آبادیوں کے درمیان پہاڑگنج اور کٹی پہاڑی جیسے مقامات لوگوں کے سفرکی دشواریوں کو کم کرتے ہیں، وہیں ان خوبصورت قدرتی پہاڑی سلسلوں کو جدید شہری آبادی سہولیات کے باعث کئی مقامات سے کریدا اور تراشا گیا، یہاں تک کہ دور سے آتے ہوئے جب ان پہاڑوں پر نظر پڑتی ہے تو خوبصورت اونچی چوٹیوں کے بجائے قدرے پکے مکانات کا ایک ہجوم چوٹی کی صورت میں نظر آتا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ مزید آگے چلتے ہوئے یہ سلسلے قدرتی انداز کے بجائے مشینی انداز میں اونچے نیچے اور عمودی سے کٹے نظر آتے ہیں، ان پہاڑی سلسلوں پر بڑھتی ہوئی آبادی کا تناسب اور دن بہ دن اگتے ہوئے گھر اس قدرتی حسن کو داغ دار کر رہے ہیں یہ کب کیوں اور کیسے بن رہے ہیں؟ ملری پہاڑی سلسلہ بھی کراچی میں گلشن اقبال ٹاؤن میں موجود ہے سرکلر ٹرینوں کی آمد و رفت کے زمانے میں اس سلسلے کی خوبصورتی کو یقینا بہت سے لوگوں نے دیکھا ہوگا جو اب سڑکوں کے ٹریفک کے شور اور دوڑتی بھاگتی زندگی میں جیسے نظر ہی نہیں آتا۔ ہم جانتے ہیں دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ کے ٹو پاکستان میں ہے جسے سر کرنا دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سے بھی زیادہ مشکل ہے۔
اس کے علاوہ نانگا پربت، شاہراہ قراقرم، کوہ ہندوکش اورکوہ ہمالیہ کے سلسلے خوبصورت پہاڑ، چوٹیاں اور درے موجود ہیں لیکن ایسے بہت سے مقامات ابھی حکومتی اداروں کی نظرکرم کے منتظر ہیں کہ جن سے ہمارے ملک کو بہت فوائد میسر ہو سکتے ہیں لیکن افسوس ہماری نظروں سے بہت کچھ اوجھل ہے۔