وفاقی محتسب کارکردگی کا جائزہ
عام آدمی کو انصاف کی فراہمی کے لیے ہر ملک میں مقامی عدالتی نظام سے لے کر سپریم کورٹ تک تو ہر سطح پر عدالتیں موجود ہیں لیکن معاشرتی تقاضوں کے مطابق آسان اور سستا انصاف فراہم کرنا ہر ملک کے لیے خاصا مشکل ہے۔
اہم نوعیت کے فوجداری اور دیوانی مقدمات کے ساتھ ساتھ ہر ملک میں عام آدمی کو اپنے حقوق کے حصول اور سرکاری اداروں کے خلاف شکایات کے ازالے کے لیے لیے عدالتوں میں کثیر سرمایہ اور وقت صرف کرنے کے باوجود آسانی سے انصاف نہیں ملتا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے دنیا کے کئی ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے وفاقی محتسب کا ادارہ قائم کیا گیا ہے۔ اس ادارے کی کارکردگی کا جائزہ خاصی دلچسپی کا حامل ہے۔
اس وقت پاکستان میں وفاقی صوبائی سطح پر محتسبوں کی تقرری کے علاوہ بینکنگ، ٹیکس، انشورنس اور ہراسمنٹ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے بھی محتسب مقرر کیے گئے ہیں۔ ان سب محتسبوں میں میں سب سے بڑا ادارہ وفاقی محتسب کا ہے۔ آج ہم وفاقی محتسب کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں۔ آج ہم محتسب کے اس ادارے کے تاریخی پس منظر اور اس کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں۔
محتسب جسے Ombudsman بھی کہا جاتا ہے سویڈش زبان کے لفظ Ombup سے اخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب عوامی ایڈوکیٹ ہے۔ جدید دنیا کی تاریخ میں یہ ادارہ سب سے پہلے 1809ء میں سویڈن میں چانسلر آف جسٹس کے نام نام سے تشکیل پایا۔ دنیا کے اکثر ممالک میں اس ادارے کو Ombudsman کا نام ھی دیا گیا ہے۔ کچھ ممالک اسے کمشنر آف وومن رائٹس، پبلک ڈیفنڈر، Mediator آڈیٹر اور محتسب کا نام دیتے ہیں۔ محتسب کے ادارے کو انسانی حقوق کے قومی محافظ کا درجہ بھی دیا جاتا ہے۔
اس وقت دنیا کے77 ممالک میں محتسب کا ادارہ کام کر رہا ہے۔ پاکستان میں 1973ء کے آئین کے تحت محتسب کے ادارے کو 1983ء میں ایک صدارتی حکم کے تحت قائم کیا گیا۔ اکثر ممالک میں پاکستان کی طرح محتسب کی تقریریں ایک حکومتی حکم کے تحت کی جاتی ہے۔ بعض ممالک ایسے بھی ہیں جہاں محتسب کی تقرری پارلیمنٹ کے ذریعے ہوتی ہے۔ ایشیائی ممالک میں پاکستان پہلا ملک ہے جس نے اس ادارے کا قیام عمل میں آیا۔
پاکستان کے پہلے وفاقی محتسب اعلی۔ جسٹس ریٹائرڈ سردار محمد اقبال تھے۔ وفاقی محتسب اعلی کی تقرری 4 سال کی مدت کے لیے ہوتی ہے۔ وفاقی محتسب کو تقریری ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے جج کی طرح آئینی تحفظ حاصل ہے۔ اس وقت ساتویں وفاقی محتسب اعلی کے طور پر سید طاہر شہباز کو یہ ذمے داری دی گئی ہے۔ وفاقی محتسب کی بنیادی ذمے داری سرکاری اداروں کی بدانتظامی کے خلاف عوام الناس کو ریلیف فراہم کرنا ہے، اس کا دائرہ اختیار پورے ملک پر محیط ہے۔
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہے۔ جب کہ اس کے علاقائی دفاتر کراچی لاہور، پشاور، کوئٹہ، ملتان، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سکھر، حیدرآباد، ڈیرہ اسماعیل خان، ایبٹ آباد اور بہاولپور میں ہیں۔ ملک کے دور دراز قصبوں کے عوام کو سہولت فراہم کرنے کے لیے وفاقی محتسب نے او سی آر کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت وفاقی محتسب کے افسران شکایات کنندگان کے گھر کے قریب ان کی شکایت کی سماعت کرتے۔ یہ افسران پابند ہیں کہ چالیس دن کے اندر اندر ان شکایات کا ازالہ کریں۔
وفاقی محتسب کی کارکردگی کی سالانہ رپورٹ ہر سال صدر مملکت کو پیش کرنا ایک آئینی تقاضا ہے۔ اس رپورٹ میں گزشتہ ایک سال کے دوران موصول ہونے والی شکایات ان پر کیے جانے والے فیصلوں اور شکایات کی نوعیت کے ساتھ ساتھ وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی سرگرمی کی تفصیلات بھی پیش کی جاتی ہیں۔ گزشتہ سال سال 2019 کی سالانہ رپورٹ کچھ عرصہ پہلے وفاقی محتسب سید طاہر شہباز نے صدر مملکت کو پیش کی۔
اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران اس ادارے نے 74، 869 شکایات کے فیصلے کیے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ یہ تمام فیصلے ساٹھ دن کے اندر کیے گئے اور خوش آیند پہلو یہ ہے کہ ان میں سے 97 فیصد فیصلوں پر عمل درآمد ہوا۔ حال ہی میں محتسب سیکریٹریٹ نے سکائپ ایمو اور انسٹاگرام پر بھی شکایات کی سماعت کا کام شروع کر دیا ہے۔
Retired ملازمین کی پنشن کی ادائیگیوں میں تاخیر ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے اکثر ملازمین اور ان کے عزیز و اقارب متاثر ہو رہے ہیں۔ وہ پینشن کے حصول کے لیے لیے کافی مشکلات کا شکار ہیں وفاقی محتسب نے اس صورتحال کو مستقل حل کرنے کے لیے اپنے سیکریٹریٹ میں ایک پینشن سیل قائم کر دیا ہے، انھوں نے سب نے تمام وفاقی محکموں اور اس کے ذیلی اداروں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ اپنے اپنے محکمے میں پینشن کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ایک سینئر افسر کو فوکل پرسن مقرر کریں۔
سپریم کورٹ نے وفاقی محتسب کی ذمے داری بھی لگائی ہے کہ وہ جیلوں کی اصلاح اور قیدیوں کی سہولت کے حوالے سے کی گئی سفارشات پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں اور اس کی سہ ماہی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائیں۔ کچھ عرصہ پہلے سپریم کورٹ نے وفاقی محتسب کے ادارے کو ملک میں گورننس کو بہتر بنانے اور بد عنوانی کے خاتمے کے لیے ہدایت جاری کی ہے۔