پاکستان گرے لسٹ سے نہ نکل سکا ؟
فنانشل ٹاسک فورس، ایف اے ٹی ایف نے ستائیس میں سے 26 شرائط پوری کرنے کے باوجود پاکستان کو گرے لسٹ سے نہیں نکالا۔ ایف اے ٹی ایف کے صدر نے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ پاکستان نے 27 میں سے 26 اہداف حاصل کر لیے ہیں اور اس حوالے سے پاکستان کی کارکردگی تسلی بخش ہے۔
لیکن اسے مثالی اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان نے دہشت گرد تنظیموں کے سینئر کمانڈر سمیت اقوام متحدہ کے نامزد کردہ 1373 دہشت گردوں کو سزائیں دینے کا ہدف حاصل نہیں کیا، اس کے علاوہ وہ پاکستان میں منی لانڈرنگ کے حوالے سے بھی خطرات ابھی تک موجود ہیں۔
اطلاعات کے مطابق حالیہ اجلاس میں فرانس نے پاکستان کی کھل کر مخالفت کی جب کہ جرمنی، برطانیہ، امریکا اور بھارت کی لابی بھی پوری طرح سرگرم رہی۔ حالیہ فیصلے کا اچھا پہلو یہ ہے کہ اب پاکستان کا بلیک لسٹ میں لے جانے کا بھارتی خواب پورا ہوتا نظر نہیں آرہا۔
پاکستان کو اب جو چھ نکاتی نیا ایکشن پلان دیا گیا ہے اس کا جائزہ چار ماہ بعد لیا جائے گا۔ فیٹف کے اس اجلاس میں پاکستان سمیت 13 ممالک کو گرے لسٹ میں رکھنے یا نکالنے کے عمل کا جائزہ لیا گیا۔ ان میں سے صرف گھانا کو اس لسٹ سے نکالا گیا، اس طرح اب پاکستان سمیت اس لسٹ میں میں 12ممالک رہ گئے ہیں جن میں البانیہ، باربادوس، کمبوڈیا بوٹسوانا، جمیکا، ماریشس، نکاراگوا، برما، شام، یوگنڈا، یمن اور زمبابوے شامل ہیں۔ فیٹف کی کی بلیک لسٹ میں دو ممالک ایران اور نارتھ کوریا شامل ہیں۔
پاکستان کو 2018 میں میں فیٹف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا۔ ایف اے ٹی ایف (FATF) فائنینشل ٹاسک فورس ایکشن پلان نے گزشتہ تین سال سے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔ بھارت سمیت دنیا کے کئی اور ممالک کی کوشش تھی کہ پاکستان کو گرے لسٹ کے بجائے بلیک لسٹ کیا جائے اور اس پر سخت ترین معاشی پابندیاں لگائی جائیں۔
دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن ریاست ہوتے ہوئے پاکستان نے ہزاروں شہریوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، اپنی معیشت اور امن عامہ کو بھی تلافی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا لیکن عالمی قوتوں اور دوست ممالک نے پاکستان کی اس بے مثال قربانی کی لاج نہ رکھی۔ پوری قوم نفسیاتی(Troma) مریض بنی۔ گرے لسٹ میں رہنے کی سفارش کو ہم اپنی کامیابی قرار دیتے ہوئے بغلیں بجا رہے ہیں۔ اس عمل کو کامیابی قرار دینا خود کو دھوکا دینے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ سب ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی ہی تو ہے۔ بدقسمتی سے ہماری حکومت گزشتہ دو ڈھائی سال سے جس طرح پاکستان کی اپوزیشن سے الجھی ہوئی ہے اس وجہ سے حکومت یکسوئی سے کسی اور قومی معاملے کی طرف توجہ نہیں دے پا رہی۔ عالمی ادارے ایف اے ٹی ایف (FATF) فائنینشل ٹاسک فورس ایکشن پلان نے گزشتہ تین سال سے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال رکھا ہے اس عرصے کے دوران ایف اے ٹی ایف اور اس کی ذیلی کمیٹی نے کئی بار پاکستان کو مہلت دی کہ وہ مجوزہ اقدامات پر عملدرآمد کرے۔ لیکن اس حوالے سے پاکستان کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان اپنی رپورٹ پر براہ راست بحث میں حصہ نہیں لے سکتا تاہم پورٹ پر دوست ممالک کھل کر بات کر سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری تھا کہ اجلاس کے دوران دوست ممالک پاکستانی موقف کی حمایت کریں۔ ذرایع کے مطابق اگر امریکا، فرانس اور برطانیہ میں سے کسی ایک ملک نے بھی پاکستانی موقف کی حمایت کی ہوتی تو پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکلنے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔
"بلیک لسٹ" میں جانے کے بعد پاکستان کو ایسی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس سے ملک کی گرتی ہوئی معیشت کو مزید سنگین بحران کا سامنا کرنے کے علاوہ دفاعی آلات کے حصول میں بھی شدید مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے قواعد کے مطابق بلیک لسٹ میں جانے سے بچنے کے لیے کم از کم تین ممبر ممالک کی حمایت حاصل کرنا ضروری ہے۔ جون 2018 میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو منی لانڈرنگ اور ٹیرف فنانسنگ کو روکنے میں ناکامی پر گرے لسٹ میں ڈال دیا تھا۔ اس سے پہلے فروری 2018 کے اجلاس میں امریکا اور بھارت کی بھرپور کوشش تھی کہ پاکستان کو بلیک لسٹ کر دیا جائے۔
اس وقت چین، ترکی اور سعودی عرب نے اس تجویز کی مخالفت کیا۔ اس وجہ سے امریکا اور بھارتی لابی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکی۔ لیکن انھوں نے ایف اے ٹی ایف کو مجبور کیا کہ وہ پاکستان کو ایک 26 نکاتی پروگرام پر چار ماہ کے دوران عمل کا حکم دیے۔ اس عرصے کے دوران پاکستان کو واچ لسٹ پر رکھا جائے۔ توقع تو یہ کی جا رہی تھی کہ پاکستان خود کو اس مشکل سے بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے گا اور بیرونی دنیا میں ایک متحرک خارجہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے خود کو واچ لسٹ سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ لیکن بدقسمتی سے ملک کے سیاسی نظام میں تلاطم کی وجہ سے ارباب بست و کشاد ایک دوسرے کے بخئیے ادھیڑنے میں لگے رہے۔
گرے لسٹ میں آنے کی وجہ سے بھارت کو یہ موقع بھی مل گیا او ر وہ پاکستان کے حوالے سے اپنے منفی خیالات کھل کر بیان کرنے لگا۔ لمحہ فکر یہ تو یہ ہے کہ پاکستان خود کو گرے لسٹ سے نہیں نکال سکا۔ ملک میں سیکیورٹی کونسل اور وزارت خارجہ کے علاوہ منتخب حکومت اور پارلیمنٹ بھی ہے۔ میڈیا کے بھی آنکھ اور کان کھلے ہوئے ہیں، اس کے باوجودبھی ہم تین سال کے دوران گرے لسٹ سے کیوں نہ نکل سکے۔
گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کے معاملے پر پاکستانی میڈیا اور خصوصا سوشل میڈیا کو بھی اپنا علمی اور اصلاحی کردار ادا کرنا چاہیے۔ ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی آنکھیں بند نہ کریں۔ بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے ہمیں معاشی اعتبار سے stable کی لسٹ سے نکال کر negative لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔ ڈالر کہاں تک پہنچ گیا، مارک اپ ریٹ بلندیوں پر ہے۔ پیٹرول کی قیمت کیا گل کھلا رہی ہے۔ مہنگائی اور پانی کی کمی ہمیں کہاں لے جا رہی ہے۔ صحت اور تعلیم کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ کوئی ہے جو اس بارے میں سوچے۔