نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے…
ہمارا سیاسی کلچر بھی کیا خوب ہے۔ نعرہ جمہوریت کا لگاتے ہیں لیکن حکمرانی بادشاہوں کی طرح کرنا چاہتے ہیں۔ انصاف خلفائے راشدین کے دور کا چاہتے ہیں لیکن فیصلے اپنی مرضی کے کرتے ہیں۔ لوٹ مار پاکستان میں کرنا چاہتے ہیں لیکن اسے جمع بیرون ملک کرنا چاہتے ہیں۔
قیادت پاکستانی عوام کی کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنے بچوں کو اس ملک میں رکھنا نہیں چاہتے۔ درد پاکستان کا لیے پھرتے ہیں لیکن شہریت دوسرے ملک کی رکھنا چاہتے ہیں۔ ووٹ غریب کی حالت بدلنے کے لیے مانگتے ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد صرف اپنے خاندان اور کاروبار کا تحفظ کرتے ہیں۔
بات نظام بدلنے کی کرتے ہیں لیکن جب اقتدار مل جائے تو اسٹیٹس کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں لیکن جب سیاسی دائو پیچ میں پھنس جائیں تو فوج کو سیاست میں آنے کے کھلے عام دعوت دیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ "جو "کی کاشت کر کے اس پودے سے "گندم" کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔
وطن عزیزکو آج جس صورت حال کا سامنا ہے وہ چند سالوں میں یا کسی ایک حکومت نے پیدا نہیں کی بلکہ ملک اور عوام کو اس حالت میں پہنچانے کی ذمے داری ہماری ناعاقبت اندیش حکومتوں کے سر ہے۔ ہمارے سیاسی راہنمائوں اور عسکری حکمرانوں نے پاکستان کے نظام حکومت کو اپنے گروہی اور ذاتی مقاصد کی بنیاد پر چلایا۔ ملکی وسائل کو ذاتی دولت سمجھ کر استعمال کیا گیا۔
ملک دولخت ہوا اور اب انتہا پسندی نے ہمیں ایک ایسی بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے کہ تاریخ اقوام عالم کے تجزیہ نگار تو کیا کہیں گے ہماری حکومتیں اور عسکری قیادت ببابل دہنگ کہہ رہی ہیں کہ ہمیں زیادہ خطرہ باہر سے نہیں بلکہ اندر سے ہے۔ اس سارے عمل میں صرف ایک ہی بات خوش آیند ہے کہ ہم نے کم از کم یہ تو تسلیم کر لیا ہے کہ پاکستانکو بغیر کسی واضح منصوبہ بندی یا فکر فردا کے چلایا جا رہا ہے۔ ہمارے اکثر سیاستدانوں کی یہ دوعملی اور بے بصیرتی نے پاکستان کو اس حالت میں پہنچا دیا ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ حاصل نہیں ہو رہا۔ ہم نے فوجی آمریت کی تین دہائیاں دیکھ لیں، جمہوریت کا چٹخارا بھی گائے گاہے دیکھا۔
اس تمام تر پس منظر میں ہم جس طرح بتدریج آمریت سے جمہوریت کی جانب بڑھ رہے ہیں، وہ آئیڈل راستہ تو نہیں لیکن ایک ایسے معاشرے میں جہاں نا انصافی، دھوکا دہی، دہشت گردی، بیروزگاری، غربت، منافقت اور مفاد پرستی عام ہوں وہاں اصلاح معاشرت یا جمہوری عمل کی رفتار آہستہ ہوتی ہے، ہماری سیاسی قیادت کو تحمل، بردباری اور برداشت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
آج ہم تاریخ کے ایسے موڑ پر ہیں کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے بتدریج جمہوریت کی منزل حاصل کرنا ہے یا دوبارہ فوجی آمریت کے چنگل میں جانا ہے۔ ان حالات میں کسی بھی لانگ مارچ، ریلی یا جلسے کو کامیاب بنانا کوئی بڑی بات نہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا تجزیہ بتاتا ہے کہ جنرل ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک اٹھی توجنرل یحییٰ خان آ گیا۔ بھٹو صاحب نے جمہوریت کے نام پر آمریت قائم کرنے کی کوشش کی تو ریلیوں اور جلسوں نے ان کا کام تمام کر دیا لیکن اقتدار سیاستدانوں کے بجائے جنرل ضیاء الحق کو ملا۔
اگر C-130"محسن جمہوریت" کا ٹائٹل حاصل نہ کرتا تو نہ پیپلز پارٹی کو اقتدار ملتا اور نہ ہی بے نظیر بھٹو کبھی وزیرا عظم بن سکتیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد بینظیر اور نواز شریف دونوں سیاستدان بننے کے بجائے ایک دوسرے کے ذاتی مخالف بنے رہے نتیجتاً دونوں کو جلاوطنی میں طویل مدت گزرانا پڑی۔ اس جلاوطنی نے انھیں پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سبق یاد کرائے تو دونوں نے " میثاق جمہوریت" کیا۔ زرداری صاحب نے میثاق جمہوریت سے ہٹ کر جب بھی نئے تجربات کا سوچا تو انھیں لوٹیا ڈوبتی نظر آئی۔
نواز شریف نے جب اصلی وزیراعظم بننے کی کوشش کی تو نہ صرف حکومت سے گئے اور نااہلی ہوئی بلکہ جیل کی سلاخیں بھی دیکھیں۔ عمران خان کی بات نرالی ہے، ان کی بھر پور خواہش ہے کہ وہ کسی طرح پنجاب کے قلعے کو شریف برداران سے آزاد کرا کروہاں تحریک انصاف کا جھنڈا گاڑ دیں، اور کسی طرح جلد از جلد وزارت عظمیٰ کے منصب پر بیٹھ کر شریف خاندان، بھٹو خاندان اور زرداری خاندان کا دیوالیہ کر دیں۔
نوازشریف کے تیور دیکھ کر اصل حلقوں نے کمال فن کا مظاہرہ کیا اور عمران خان کی خواہش اور خواب پورا ہوگیا۔ سہانے خوابوں پر عمل کرنے کی کوشش میں عمران خان نے جو کمالات دکھائے۔ اس سے پاکستان کا سیاسی اور معاشی نظام لرز رہا ہے۔ عمران خان کو اقتدار میں میں لانے والے حلقے بھی خود کو بند گلی میں محسوس کر رہے ہیں۔ ہماری قومی اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی نے گزشتہ دنوں سرکس کے جس شو کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے تو سب کی بس کرادی ہے۔
ہمارا کل تب ہی اچھا ہو گا جب ہم اپنا آج اچھا بنائیں گے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنا کل "اپنی مرضی" کے مطابق بنانے کے چکر میں ہم اپنے آج سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں۔ ملک کے سیاسی نظام کو بند گلی سے نکالنے کا واحد حل قومی ڈائیلاگ کے بعد نیا روڈ میپ تیار کرنا ہے اور ایسی انتخابی اصلاحات کی بھی ضرورت ہے کہ جس پر سب سیاسی جماعتوں کو اعتماد ہو اور انتخابات کے نتائج کو چرایا نہ جا سکے۔ ہمیں بقول اقبال محو غم دوش ہونے کے بجائے فکر فرداکرنی ہے۔ آج ہم جو منصوبہ بندی کرینگے تو اس کا پھل آنیوالی نسلوں کو ملے گا۔ جو قومیں فکر فرداچھوڑ کر اپنے حال میں مست رہی وہ صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔