’’حسبنا اللہ و نعم الوکیل‘‘
کلام الٰہی کا اعجاز ہمیں زندگی کے اکثر پہلوئوں میں نظر آتا ہے۔ لوگ وظائف اور ختم قرآن کی محفلیں منعقد کر کے آزمائشوں، بلائوں اور مشکلات سے نجات کی راہیں ڈھونڈتے ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے عالم انسانیت انتہائی مشکل حالات سے گزر رہی ہے۔ اس مرض کا دنیاوی علاج اب تک دریافت نہ ہوسکا ہے۔
مختلف علمائے کرام نے اس وبا کو ٹالنے کے لیے جو روحانی وظائف بتائیں ہیں ان میں سے اکثر نے "حسبنا اللہ و نعم الوکیل" کا ورد کرنے کا کہا ہے۔ مولانا تقی عثمانی صاحب نے بھی جو وظیفہ میڈیا کے ذریعے عوام الناس کو بتایا ہے اس میں سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص اور"حسبنا اللہ و نعم الوکیل" کا ورد تجویز کیا ہے۔"حسبنا اللہ و نعم الوکیل" کے حوالے سے میں دو حیران واقعات قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں جو تاریخی اعتبار سے"اعجاز کلام الٰہی" کا مظہر ھیں۔ یہ واقعات ممتاز سیاح ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامہ ہند میں رقم کیے ہیں۔
ابن بطوطہ لکھتے ہیں کہ میں ایک ویران گائوں میں گیا یہاں کے لوگ پانی پینے کے لیے بارش کا پانی تالابوں میں جمع کر لیتے ہیں، مجھے اس پانی سے گھن آ رہی تھی، میں نے ایک کچا کنواں دیکھا اس پر مونج کی رسی پڑی ہوئی تھی لیکن ڈول نہ تھا۔ میں نے رسی میں اپنی دستار باندھی اس میں جو کچھ پانی لگ گیا میں وہ چوسنے لگا لیکن پیاس نہ بجھی پھر میں نے اپناچمڑے کا موزہ رسی سے باندھا لیکن رسی ٹوٹ گئی اور موزہ کنویں میں جا پڑا۔ پھر میں نے دوسرا موزہ باندھا اور پیٹ بھر کر پانی پیا اچانک مجھے ایک شخص نظر آیا۔ میں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو یہ شخص کالے رنگ کا تھا اور اس کے ہاتھ میں لوٹا اور عصا تھا اور اس کے کندھے پر جھولی تھی۔
اس نے مجھ سے السلام علیکم کہا، میں نے وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ جواب دیا اس نے فارسی میں دریافت کیا "چہ کسی" میں نے کہا کہ میں راستہ بھول گیا ہوں، اس نے کہاکہ میں بھی راستہ بھولا ہوا ہوں۔ پھر اس نے اپنا لوٹا رسی سے باندھا اور پانی کھینچا میں نے ارادہ کیا کہ پانی پیوں اس نے کہا صبر کر۔ اس نے اپنی جھولی سے بھنے ہوئے چنے اور چاول نکالے میں نے وہ کھائے اور پانی پیا۔ اس نے وضو کر کے دو رکت نماز پڑھی میں نے بھی وضو کیا اور نماز پڑھی۔ اس نے میرا نام پوچھا میں نے کہا ابو عبداللہ محمد میرا نام ہے ( ابن بطوطا کا اصلی نام)پھر میں نے اس سے اس کا نام دریافت کیا تو اس نے کہا قلب فارح (خوش دل) میں نے کہا فال تو اچھی ہے۔ اس نے کہا کہ میرے ساتھ چل۔ میں نے کہا اچھا۔
تھوڑی دیر تک میں اس کے ساتھ پیدل چلتا رہا، تھکاوٹ کی وجہ سے میرے اعضا نے جواب دیدیا اور میں کھڑا نہ رہ سکا۔ اس نے پوچھا کہ کیا ہوا میں نے کہا کہ میں بہت تھک گیا ہوں، اب چلا نہیں جاتا۔ اس نے کہا سبحان اللہ مجھ پر سوار ہو لے۔ میں نے کہا تو ضعیف آدمی ہے مجھے اٹھا نہیں سکے گا۔ اس نے کہا تو سوار ہو جا، خدا مجھے طاقت بخشے گا۔ میں اس کے کندھوں پر سوار ہو لیا اس نے مجھے کہا کہ تو "حسبنا اللہ و نعم الوکیل" پڑھتا چلا جا۔ میں نے اس کا ذکر شروع کیا اور مجھے نیند آ گئی۔ جب میری آنکھ کھلی تو میں زمین پر لیٹا ہوا تھا۔ بیدار ہوا تو اس آدمی کا پتہ نہ لگا میں نے خود کو ایک آباد گائوں میں پایا۔ میں حیران تھا کہ سیکڑوں میل کا سفر پلک جھپکنے میں کیسے طے ہوگیا۔ یہ سب کچھ "حسبنا اللہ و نعم الوکیل" کا اعجاز تھا۔
یہ گائوں ہندئووں کا تھا۔ اس علاقے کا حاکم ایک مسلمان بادشاہ تھا۔ لوگوں نے اسے خبر دی تو وہ میرے پاس آیا وہ مجھے اپنے گھر لے گیا۔ مجھے گرم گرم کھانا کھلایا۔ غسل دلایا اس نے کہا کہ میرے پاس ایک گھوڑا اور ایک عمامہ ہے جو ایک مصری شخص میرے پاس رکھ گیا تھا وہ تم پہن لو۔ جب وہ عمامہ لایا تو یہ وہی کپڑے تھے جو میں نے اس مصری کو دیے تھے جب وہ مجھے کول(بھارت کا ایک شہر) میں بہت عرصے پہلے ملا تھا ملا تھا۔ میں نہایت متعجب ہوا اور سوچ رہا تھا کہ وہ شخص جو مجھے ا پنے کندھوں پر سوار کر کے لایاکون تھا۔
مجھے یاد آیا کہ سفر پر روانہ ہونے سے پہلے مجھے، ایک ولی اللہ ابو عبداللہ مرشدی ملے تھے، انھوں نے فرمایا تھا کہ تو ہندوستان جائے گا تو وہاں تجھے میرا بھائی ملے گا اور وہ تجھے ایک سختی سے رہائی دیگا اور قلب فارح کا بھی یہی ترجمہ ہے، اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ یہ وہی شخص تھا جسکی خبر مجھے شیخ ابو عبداللہ مرشدی نے دی تھی۔ میں نے افسوس کیا کہ مجھے ان کی صحبت زیادہ دیر تک نصیب نہ ہوئی۔
ابن بطوطہ نے اسی آیت "حسبنا اللہ و نعم الوکیل" کا دوسرا واقعہ ہندوستان کے مشہور بادشاہ سلطان محمد تغلق شاہ کے زمانے کا بیان کیا ہے۔ ابن بطوطہ، تغلق کے دور میں دارالخلافہ دہلی کے قاضی کے اہم عہدے پر متمکن تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بادشاہ نے تختہ الٹنے کی ایک سازش کے انکشاف کے بعد دوسروں کے ساتھ حضرت شہاب الدین شیخ جام کو بھی موردالزام ٹھہرایا۔ انھیں ایک غار میں قید کر دیا گیا یہ غار دہلی سے باہر تھی۔ ان کے ایام قید میں، میں ایک دن غار دیکھنے وہاں گیا تو شیخ شہاب الدین سے بھی ملاقات ہوئی، کچھ عرصہ بعد بادشاہ اس غار کی جانب گیا اور شیخ شہاب الدین کے بیٹوں سے پوچھا کہ تمہارے باپ سے ملنے یہاں کون کون آتے تھے تو انھوں نے میرا نام بھی لیا بادشاہ نے مجھے بھی قید کرنے کا حکم دیدیا۔
چار غلاموں کا پہرہ لگا دیاگیا۔ اس پہرے کا مطلب موت کا انتظار ہوتاہے۔ ایسے شخص کا جس پریہ پہرہ لگایا جاتا ہے اس کا بچنا مشکل تصور کیا جاتا تھا۔ مجھ پر جمعہ کے دن پہرہ لگا۔ میں نے "حسبنا اللہ و نعم الوکیل" پڑھنا شروع کیا اور اس روز میں نے 33ہزار وفعہ یہ پڑھا رات کو میں دیوان خانہ میں رہا اور پانچ روز کا ایک روزہ رکھا ہر روز ایک کلام اللہ ختم کرتا تھا اور پانی سے افطار کرتا۔ پانچ دن کے بعد میں نے روزہ کھولا اور چار دن کا پھر روزہ رکھا شیخ کے قتل کے بعد میری رہائی ہوئی۔
اس کے بعد میرا دل ملازمت سے کھٹا ہو گیا اور میں شیخ امام عالم عابد زاہد خاشع فرید الدہروحید شیخ کمال الدین عبداللہ غازی کی خدمت میں چلا گیا۔ یہ بزرگ اولیا اللہ میں سے تھے اور ان کی کرامتیں مشہور تھیں۔ میں نے دنیا ترک کر کے اور اپنا سب مال مساکین کو تقسیم کر کے شیخ کی خدمت اختیار کی۔ شیخ دس دن اور بعض دفعہ بیس بیس دن کا روزہ رکھتے تھے میرا دل بھی چاہتا تھا کہ میں بھی اسی طرح روزے رکھوں مجھے شیخ روک دیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ عباد ت میں اپنے نفس پر بہت سختی نہ کیا کرو۔
درج بالا واقعات کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب دنیاوی علاج اور حیلے بہانے مکمل طور پر ناکام ہو جائیں تو ہم سب کا واحد سہارا کلام الٰہی ہی ہے۔ ہم سب کو اللہ تعالی کے حضور کثرت سے استغفار کرتے ہوئے یہ دعا کرنی چاہیے کہ رب کریم ہم سب پر رحم فرمائے اور کورونا جیسی مہلک بیماری سے پوری دنیا کو نجات دے۔ امین۔