گوجرانوالہ جلسہ: سیاسی منظر نامہ کیا رخ اختیار کرتا ہے…
پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں اگلے روز پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے قائدین کی تقاریر اور اسٹیڈیم میں عوامی اجتماع کا حقیقی جائزہ لینا یا اس کے دیگر بہت سے سیاسی پہلوؤں کو قلم برداشت کرنا پاکستان کے زمینی سیاسی حقائق کے پس منظر میں ایک Hill Task ہے جس کا احاطہ کرنا یقینی طور پر خاصا مشکل اور پیچیدہ کام ہے۔
گوجرانوالہ جلسے میں اپوزیشن کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اپنے خطاب میں اس ادب کا خیال رکھا۔ کچھ بھی نہ کہے، کچھ کہہ بھی جائے اور کچھ کہتے کہتے رہ بھی جائے۔ پی ڈی ایم کے قائدین نے گوجرانوالہ شہر میں ہونے والے اس جلسہ عام میں جن خیالات کا اظہار کیا وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کو ایک نئے موڑ پر لے آئے ہیں۔
اس جلسہ عام میں قائدین کے خطاب مین اسٹریم میڈیا پر براہ راست تو نہ دکھایا گیا لیکن چند چھوٹے چینلز اور سوشل میڈیا پر اسے نہ صرف یہ کہ لائیو دکھایا گیا بلکہ اب تک اسے تواتر سے شیئر کیا جا رہا ہے۔ اس جلسہ میں شرکأ کا طرز تخاطب اور ہدف نہ صرف یہ کہ واضح اور دو ٹوک تھا بلکہ پاکستان کی 72 سالہ سیاسی تاریخ میں کسی بھی سیاستدان قلم کار یا تجزیہ نگار کو یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ ایسا انداز اختیار کر سکتا۔
گوجرانوالہ جلسے کے حوالے سے جب میں نے اپنے دیرینہ دوست اور ملک کے ممتاز کالم نگار پروفیسر ڈاکٹر مجاہد منصوری سے ان کی رائے دریافت کی تو وہ بولے، حقیقی جمہوریت اور حقیقت پسندی کا راگ الاپنا آسان ہے لیکن اس طرح کی تقاریر زیادہ دیر تک پر اثر نہیں رہتیں، اگر اس بیانیہ کو اندرون ملک حمایت نہ ملی تو یہ آواز صدا بہ صحرا ثابت ہو گی۔
ڈاکٹر منصوری صاحب کا تجزیہ یقینا کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آخر یہ نوبت کیوں آئی کہ سب پردہ فاش اور چاک ہو گئے۔ یہ عمل کسی بھی طرح ملک کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام کے لیے خوش آئند نہیں ہے۔ نہ تو نواز شریف آیت اللہ خمینی یا نیلسن منڈیلا جیسے ہیں کہ جن کا دامن ہر طرح سے صاف ہو اور ان کی جانب کوئی انگلی نہ اٹھائی جا سکے لیکن دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک موجودہ حکومت کے عالی دماغوں نے بھی سیاسی بصیرت سے کام نہ لیا۔
مسلم لیگ ن کو اگر اقتدار سے ہٹانا ہی مقصود تھا تو پھر مقدمات اور نااہلی کا کھیل کھیلنے کے بجائے عام انتخابات میں vote out کردیا جاتا تاکہ اس جماعت کی سیاست ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی۔ اس فن میں ہم دنیا بھر میں یکتا ہیں۔ فیصلہ سازوں اور عمران خان نے ایسا کیوں کیا؟ یہ سارا عمل ظاہر کرتا ہے کہ ہماری فیصلہ ساز قوتوں میں سیاسی بصیرت کی کمی ہے۔ پاکستان کے سیاستدان اب تک کسی اور کی بنائی ہوئی Pitch پر کھیلتے رہے ہیں لیکن غالبا پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ پچ بنانے والوں کو ایک سیاستدان کی بنی ہوئی پچ پر کھیلنا پڑ رہا ہے۔
ایک خیال یہ پایا جاتا ہے کہ یہ میچ جیتنے کے لیے ضروری ہے کہ پی ٹی ایم کی تین بڑی جماعتوں میں سے کسی ایک کو ریٹائرڈ ہرٹ کر دیا جائے یا ہنگامی بنیادوں پر مہنگائی کے جن کو قابو کر لیا جائے۔ رہا سوال میڈیا کو کو قابو رکھنے کا تو یہ عمل نہ تو دیرپا ہو گا اور نہ ہی قابل ستائش۔ سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں، مین اسٹریم میڈیا کو کنٹرول کرنے سے قلیل مدتی ہدف تو حاصل کر لیا جاتا ہے لیکن یہ دیرپا ثابت نہ ہو گا۔
اگر موجودہ حکومت کی حامی قوتیں، پی ڈی ایم کی بڑی جماعتوں میں سے کسی ایک کو الگ کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی اور مہنگائی کے جن کو بھی قابو نہیں کر سکتیں تو ملک کا سیاسی منظرنامہ مستقبل قریب میں مزید گھمبیر اور پیچیدہ ہوتا جائے گا۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے الیکٹیبلز کو توڑ کر جو سیاسی نظام تشکیل دیا گیا، وہ ڈیلیور نہ کر سکا ہے اور اس طرح کی مزید کوششیں بھی بار آور ثابت ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ بداعتمادی کی سیاسی فضا میں ہمیں شخصیات سے بالاتر ہو کر نہ صرف یہ کہ اداروں کو محفوظ بنانا ہے بلکہ گرتی ہوئی معیشت کو بھی سنبھالنا ہے ورنہ…
نہ کھو بیٹھیں کہیں وہ قافلے میراث ماضی بھی
جو ہاتھوں میں زمانہ حال کا پرچم نہیں لیتے