مرے مے خانے سلامت رہیں
میں فکر میں پڑ گیا ہوں ہمارے شراب خانے کب کھلیں گے۔ ان پر سے لاک ڈائون کب اٹھے گا۔ ہمارے اقبال نے دہائی دی تھی کہ:
تین سو سال سے ہیں ہند کے مے خانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام ساقی
اصل میں ذہن کہیں سے کہیں چلا جاتاہے۔ مضمون میں برطانیہ کے شراب خانوں پر پڑھ رہا تھا جس میں رونا رویا گیا ہے کہ کیا برطانیہ کے شراب خانے کورونا کا وار سہہ سکیں گے۔ برطانیہ والے کہتے ہیں ہمارے شراب خانے پہلے ہی مشکل صورت حال سے دوچار تھے۔ کم از کم گزشتہ تین سو سال سے وہاں شراب خانہ (pub) ایک انسٹی ٹیوشن یا ادارہ ہے۔ دور دراز کے گائوں میں بھی اسے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ لوگ فخر کرتے ہیں کہ ہمارا فلاں پب گزشتہ 300سال سے ہمارے گائوں کی خدمت کر رہاہے ان کے خیال میں یہ وہ جگہ ہے جہاں شام کو تھکا ماندہ شخص چند لمحوں کے لئے اپنوں اور غیروں میں بڑے بے تکلفی سے بیٹھ کر اپنا غم غلط کر سکتا ہے۔ بڑی پتے کی بات لکھی ہے کہ گھر کا بیڈ روم اس کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ یہ مل بیٹھنے کا کلچر بھی ہے، آپ کی جلوت بھی ہے اور خلوت بھی ہے۔ یہ ادارہ ہمیشہ تسلسل کے ساتھ زندہ رہا ہے۔ چاہے فرانس کے نپولین کے ساتھ جنگیں ہوں۔ صنعتی انقلاب کی تیز رفتاری ہو۔ دو عظیم جنگیں ہوں۔ ہٹلر کے طیارے آپ پر منڈلا رہے ہوں یا حالیہ دنوں میں تھیچر ازم کا طوفان یا بریگزٹ کا انقلاب، میرے خانے آباد رہے ہیں۔ ہر اہم موڑ پر آپ کو ایک مرکزی حیثیت میں نظر آئے گا۔ کنٹری بری میٹل سے ادبیات میں شروع کریں یا کسی بھی سیاسی انقلاب کے اہم موڑ کا تذکرہ کریں۔ آپ کو ایک مے خانہ مرکز میں دکھائی دے گا یہاں سے ہر کام کا آغاز ہوتا ہے جس طرح ہمارے ہاں مسجدوں، خانقاہوں کی اہمیت ہے۔ 73ء کی تحریک میں نیلا گنبد کی مسجد اور مسلم مسجد کو کیسی مرکزی اہمیت تھیں یہ مرے شراب خانے تھے۔ داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کا مرکز تجلیات ہے جہاں مے توحید بٹتی ہے۔ بہرحال ابھی ادھر نہیں آتے۔ بتانا یہ ہے کہ مے خانہ یورپ میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور انہیں فکروں کے ساتھ ایک بنیادی فکر یہ لاحق ہو گئی ہے کہ آیا ان کے شراب خانے دوبارہ آباد ہو پائیں گے۔ بڑے فکر مند ہیں کہ صوبوں کی روایت کہیں ٹوٹ تو نہ جائے گی وہ پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار تھے اب 40فیصد افراد کی گنجائش سے چلانے کی اجازت ملے گی یا خدا، کیا بنے گا، وہ فکر مند ہیں ان کو حق ہے ان کا کلچر ہے۔
مجھے نہیں معلوم پب اور بار میں کیا فرق ہے معلوم بھی نہیں کرنا چاہتا وگرنہ اردگرد بڑی بڑی ڈکشنریاں اور انسائیکلوپیڈیا دھرے ہیں۔ گوگل میں بھی شاید مل جائے وگرنہ کسی ایاز امیر سے پوچھا جا سکتا ہے۔ مجھے یہاں صرف ایک بات یاد آ رہی ہے پاکستان بننے کے بعد ہمارے ہاں بھی کئی شراب خانے تھے جن کو مستانے اب تک یاد کرتے ہیں۔ ایک بات کا البتہ مجھے علم ہے ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ہاں اشرافیہ یا اپر مڈل کلاس اپنے گھروں میں ایک کمرے کا اہتمام کرتے تھے جسے اسٹڈی کہتے تھے۔ ایک واقعہ بڑا معروف ہے کہ احمد ندیم قاسمی لاہور میں کتابوں کی مشہور دکان فیروز سنز پر کھڑے تھے کہ ایک خاتون دکان میں داخل ہوئی اور سیلز مین کو پانچ سو کا نوٹس دے کر کہنے لگی کہ یہ پانچ سو کی بنفشی جلد والی کتابیں باندھ دو میں ابھی آ کر لے لیتی ہوں۔ اس زمانے میں 500کا نوٹ سب سے بڑا تھا اور خاصا قیمتی تھا قاسمی صاحب نے پوچھا یہ خاتون کیا کہہ رہی تھی۔ سیلز مین نے بتایا کہ گھر میں پردوں یا صوفے کا رنگ بنفشی ہو گا یہ اس رنگ کی کتابیں سجانا چاہتی ہے، ہر بڑے گھر میں سٹڈی ہوتا تھا اور صاحب خانہ جب کسی سے تنہائی میں بات کرنا چاہتا اس پر اپنا رعب جمانا چاہتا تھا تو سٹڈی میں لے جاتا ملک میں سیاستدانوں کے گھروں کے سٹڈی بجا طور پر مشہور تھے شیر باز مزاری، ممتاز دولتانہ اور بھی بہت سے لوگ مجھے یاد ہے کہ ہم نامور مسلم لیگی رہنما سردار شوکت حیات کے سٹڈی میں مصروف گفتگو تھے کہ ایم انور ایڈووکیٹ کا فون آیا کہ مجیب شامی تمہارے پاس ہیں۔ قریشی برادران کے ساتھ ان کی گرفتاری کا حکم بھی جاری ہو چکا ہے۔ بیگم مسرت شوکت نے یہ اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ ان کا کہنا ہے گرفتاری صبح کو دیں گے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے۔ اب اشرافیہ اور بورژدا کے ہر گھر سے سٹڈی غائب ہو گئے ہیں اس کی جگہ اب روشن چمکتی بار نے لے لی ہے جام اور سلیقے سے سجی مہنگی شرابوں کی بوتلیں اور ایک بار بوائے۔ میں جب پرنٹ میڈیا چھوڑ کر الیکٹرانک میڈیا میں آ رہا تھا تو وہی فیصلہ کن میٹنگ ایک گھر میں طے تھی۔ اچانک معلوم ہوا کہ میٹنگ کی اہمیت اور پرائیویسی کے لئے بار کا انتخاب کیا گیا ہے۔ میں اس کی چکا چوند سے بہت متاثر ہوا۔ اسی دن اندازہ ہو گیا تھا کہ مرے ملک پرنیا دور شروع ہو چکا ہے مرے جیسے خشک مزاج پر اس کے کیا اثرات پڑنے تھے بس دیکھتا ہی رہ گیا۔
دنیا بھر میں جب بین الاقوامی کانفرنسیں ہوتی ہیں تو وہاں کسی بڑی کمپنی کا ایم ڈی یا اس مرتبے کا شخص اپنے مہمانوں کی تواضع کے لئے ہوٹل میں ایک کمرہ لیتا ہے جسے مہمان نوازی (hospitality) کا نام دیا جاتا ہے۔ اس لفظ کا مطلب یہی بن کر رہ گیا ہے کہ اس کمرے میں مہمانوں کی شراب سے خاطر مدارت کی جائے گی تاکہ ان کے دل موہ لئے جا سکیں۔
میں نے کیا سوچا ہے کہ مرے مے خانوں کا کیا ہو گا۔ یہ مسجدیں یہ خانقاہیں یہ درگاہیں یہ سب مرے مے خانے ہیں۔ کورونا نے اس پر بھی پابندیاں لگا دیں۔ علماء نے اسے خوشدلی سے یا بادل نخواستہ قبول کیا۔ شاید اس لئے بھی کہ ایران میں زیارت کے لئے آئے ہوئے لوگ اس کا شکار ہوئے کورونا نے ایک آیت اللہ کی رائے نہیں مانی کہ جو کورونا کے ڈر سے زیارت کو نہ آئے اس کا ایمان کمزور ہے بلکہ دوسرے آیت اللہ کی رائے تسلیم کی دوسروں کی زندگی خطرے میں ڈالنا اقدام قتل ہے اور اس پر دیت واجب ہو گی۔ پاکستان میں تبلیغی جماعت نے اپنا اجتماع یہ کہہ کر منعقد کیا کہ ہم نے حصار کر لیاہے۔ سعودی عرب نے ذرا تیزی دکھائی اور حرمین شریفین کو بند کر دیا عمرہ پر پابندی لگا دی اور حج جیسے فریضے پر بھی تذبذب کا شکار ہیں۔ اللہ اپنی سنت نہیں بدلتا۔ وگرنہ نظام عالم تلپٹ ہو جائے۔ ہماری مساجد نے عمومی طور پر احتیاط کی اب مگر وہ مخمصے میں ہیں تراویح اور اعتکاف بھی گزر گیا اب عید کی نماز سر پر ہے۔ اگر ایس او پی پر عمل کیا گیا تو جس طرح مغرب کے مے خانے چالیس فیصد لوگوں کی اجازت دے رہے ہیں ویسے کیا ہماری مسجدیں اگر ایسی پابندی کے شکار رہیں تو کیا آباد ہو سکیں گی اور ہاں لوگ ویسے ہی آئیں گے برطانیہ میں ایک سروے میں معلوم ہوا کہ اپنی برسوں پرانی روایت کے باوجود وہاں کے 63فیصد لوگ دوبارہ مے خانوں میں جانے سے گریزاں ہیں۔ وہ اس پر رو رہے ہیں۔ ہمارا کیا بنے گا ہمیں تو حکومت سے کوئی زرتلافی بھی نہیں چاہیے یہ مے خانے کیسے آباد ہوں گے ان کے آباد ہونے کے باوجود اقبال مطمئن نہیں تھا۔ تین سو سال سے ان کے اصل صورت میں کھل جانے کا منظر تھا۔ درمیان میں دلی کی جامعہ مسجد بھی آتی ہے کئی خانوادے مے توحید اور عشق رسالت کے خم پہ خم لٹا رہے تھے پھر بھی اطمینان نہیں ہو رہا تھا اب مگر کیا بنے گا مرے مے خانے سلامت رہیں کبھی ہم نے سوچا اقبال کا ایک اور شعر سن لیجیے:
تیرے بھی صنم خانے، میرے بھی صنم خانے
دونوں کے صنم خاکی، دونوں کے صنم فانی