Things are falling a parts
شاہراہ دستور پر دستور کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔ ریاست کے بچوں نے ریاست ماں کا بھیانک چہرہ دیکھا۔ شہر اقتدار میں اپنے دکھوں کی چارہ گری کے لئے آئے ہوئے پاکستانی شہریوں کے ساتھ جس طرح کی بدسلوکی کی گئی یہ سیاسی اور انتظامی زوال کا افسوسناک اور شرمناک مظاہرہ تھا۔ احتجاج کرنے والے کون تھے تنخواہ دار سرکاری ملازمین، قوم کے بچوں کو تعلیم دینے والے قابل احترام اساتذہ تھے۔ انتہائی کم تنخواہ پر کئی طرح کی خدمات سرانجام دینے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز تھیں۔ خبر ہے کہ ان میں سٹیل مل کے ملازمین بھی تھے۔ پی آئی اے، واپڈا اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ملازمین تھے۔ ان احتجاجیوں کی شناخت مختلف ہو سکتی ہے۔ ان کے روزگار کے ذرائع مختلف ہو سکتے ہیں۔ ان کے کام کے محکمے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ان میں دو چیزیں تمام تر تفریق کے باوجود مشترک تھیں۔ نمبر ایک یہ کہ تمام احتجاجی، مرد و عورتیں، پاکستان کے شہری تھے اور آئین پاکستان کی رو سے ریاست ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضامن تھی۔
کسی بھی شہری کے بنیادی حقوق میں اس کی جان مال اور عزت کی حفاظت سرفہرست ہے۔ دوسری بات جو ان احتجاجیوں میں مشترک تھی وہ یہ کہ سب کے سب مہنگائی کے مارے ہوئے تھے۔ آئی ایم ایف کے حکم پر ہر چار روز کے بعد گیس، پٹرول، بجلی کی قیمتیں بڑھنے سے نالاں تھے۔ ان قیمتوں کے بڑھنے سے زندگی سے جڑی تمام بنیادی چیزوں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ دالیں، سبزیاں، گھی، نمک، مرچ، گوشت، دوائیں، کپڑے، غرض ہر ضرورت کی چیز مہنگائی ہو جاتی ہے۔ جبکہ مہینے کے بعد ملنے والی تنخواہیں تو زمیں جنبد نہ جنبد گل محمدکے مصداق وہیں کی وہیں رکی ہوئی ہیں۔ خرچے، ضرورتیں، اژدھے کی طرح منہ کھولے کھڑی ہیں۔ مہنگائی تو یاجوج ماجوج کی فوج کی طرح تنخواہ کی دیوار مہینے کی پندرہ تک چاٹ جاتی ہے۔ اب ایسے میں باقی کے پندرہ دن کیسے خالی جیب اور بھری ہوئی بھاری ضرورتوں کے بوجھ کے ساتھ کیسے گزارے جائیں؟
بس اس ایک سوال کا جواب دے دیں یہ شہر اقتدار میں موجود چارہ گر جن کی پالیسیاں، ان کی اپنی جیبیں بھی بھرتی ہیں اور بنک بیلنس میں بھی اضافہ ہوتا ہے جبکہ عوام ان پالیسیوں میں روندے جاتے ہیں۔ یہ ارکان اسمبلی اپنے سالانہ مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ شیرو شکر ہو جاتے ہیں، جانتے ہیں کہ ہم نے ڈاکٹر فاسٹس کی طرح اپنی روح آئی ایم ایف کو گروی رکھی ہوئی ہے سو آئی ایم ایف ڈومور کا نعرہ لگاتی ہے اور عوام کے دردمیں حکومت پٹرول، گیس، بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی توثیق یہ سوچ کر د یتی ہے کہ مہنگائی کے اسی رگڑے سے تبدیلی کی پری برآمد ہو گی۔ بنیادی ضرورتوں کے لئے بیچ بازار میں کھڑے اپنی ہلکی جیب پر شرمندہ ہوتے ہوئے سفید پوش پاکستانیوں کی خفت، خجالت اور بے بسی پر ہی ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی جائے گی۔ جس سرکاری ملازمین کے اکٹھ پر پولیس اہلکاروں نے آنسو گیس کی شیلنگ کی، لاٹھی چارج کیا، طاقت وروں نے جس طرح قابل احترام مگر بے بس پاکستانیوں شہریوں کو سڑکوں پر گھسیٹا، انہیں رسوا کیا، جیسا سڑکوں پر گھمسان کا رن پڑا ایسا لگتا تھا کہ فوجیں کسی دشمن کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ سرکاری ملازمین وہ طبقہ ہیں جو ماہانہ تنخواہ کے لئے سرکار کے کھونٹے سے بندھا ہوتا ہے۔ اپنی نوکری اور تنخواہ کے حوالے سے وہ ہمیشہ عدم تحفظ کا شکار رہنے والے لوگ ہیں۔ سرکاری ملازمین کسی سیاسی پارٹی کی کال پر کبھی سڑکوں پر نہیں آتے اور نہ ہی وہ ایسا ایڈونچر کسی صورت بھی افورڈ کر سکتے ہیں۔ احتجاج اور بغاوت ان کے ڈی این اے میں موجود ہی نہیں ہوتا تاوقتیکہ کہ ان پر زندگی تنگ کر دی جائے۔ تنخواہ بڑھانے کے ساتھ کچھ اور مطالبات بھی جن کے خلاف یہ لوگ سراپا احتجاج ہیں برطرفیاں، جبری ریٹائرمنٹ، پنشن اور بعداز ریٹائرمنٹ مراعات اور پنشن کا خاتمہ کرنا یہ سب انتہائی ظالمانہ اقدامات ہیں۔
الفاظ نہیں کہ اہل اقتدار کی سنگ دلی اور بے حسی کا ماتم کیا جائے اور کس کس کو روکیں گے یہ احتجاج کرنے سے، اسلام آباد کی سڑکوں پر چند ہزار احتجاجی، اس وقت پورے ملک کی عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں جنہیں مہنگائی کی تیز رفتار ٹرین کے نیچے کچلا جا رہا ہے۔ مہنگائی ٹرین کی پٹڑی تلے عام آدمی کے خواب، خواہشیں اور ضرورتوں کے بدن پڑے ہیں۔ احساس سے عاری حکمران ہماری بد قسمتی نہیں تو اور کیا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ عوام کی بے بسی اور بے قعتی کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ آئے روز تنخواہوں میں اضافے کے لئے احتجاج ہوتے ہیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کئی روز تک دھرنا دیے بیٹھی رہی تھیں۔ نابینا کا احتجاج بھی سب کو یاد ہو گا ان احتجاجیوں سے حکومتی نمائندے ملتے ہیں۔ مطالبات کو پورا کرنے کی یقین دہانی پر احتجاجی اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور پھر ان کے مطالبات کی فہرست اور یقین دہانی کو بے حسی کے کچرا دان میں پھنیک دیا جاتا ہے۔ سرکار کے اپنے عوام کے ساتھ برتائو کی کیسی بدترین مثال ہے یہ۔ اسی لئے اس بار احتجاج کرنے والے طے کئے بیٹھے ہیں کہ حکومتی یقین دہانی پر نہیں، سرکاری نوٹیفکیشن پر یقین کرنا ہے۔ یہ نوبت اسی وقت آتی ہے جب عوام حکومت وقت پر اپنا اعتماد اور اعتبار کھو چکے ہوں۔
استادوں سے لے کر لیڈی ہیلتھ ورکرز تک مختلف پس منظر کے سرکاری ملازمین سڑکوں پر ہیں اور مریخ سے آئی ہوئی مخلوق ان سفید پوشوں کا درد سمجھنے کی بجائے انہی کو سبق سکھانے کے درپے ہے۔ افسوس کہ کوئی صاحب شعور حکومتی بندوبست کا حصہ نہیں جوحالات کے الجھے ہوئے ریشم کو فہم و فراست سے سلجھانے کا مشورہ دے سکے۔ حالات کی صورت بتاتی ہے کہ چیزیں اپنے مرکز سے ہل چکی ہیں۔ ڈبلیو بی ییٹس کی سطوریاد آتی ہیں
Things are falling apart;
the center cannot hold