ہمارے پاس سرسیدؒ کو یاد کرنے کی فرصت نہیں
سیاست کا ہنگام عروج پر ہے، ہمارے ہاں سنسنی خیز حالات و واقعات کا تسلسل ہے۔ لیکن سماجی سطح پر بھی توجہ کھینچ لینے والے حادثات سانحے اور واقعے ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ اس پر غضب یہ کہ ہمارے شب و روز سوشل میڈیا کے کھونٹے سے بندھے ہیں۔ جہاں سطحیت فروغ پاتی ہے، خود نمائشی اور ستائش باہمی کے آئینے میں ہم ہمہ وقت خود کو دیکھے سراہے جانا پسند کرتے ہیں۔
تو پھر ایسے میں ہمیں سرسید کہاں یاد رہتے۔ !17اکتوبر کو اس نابغہ روزگار شخصیت کا یوم پیدائش، آیا اور گزر گیا۔ ہمیں کیوں کر خیال آتا کہ تحریک علی گڑھ سے جنم لینے والی علی گڑھ یونیورسٹی کو اس برس 2020میں پوری ایک صدی بیت گئی۔ اکتوبر کا آغاز ہوا تو ذہن کے کسی کونے میں رکھی ہوئی ٹو۔ ڈو فہرست پر لکھا تھا کہ اس بار سرسید کے یوم پیدائش پر کچھ لفظوں کا خراج ضرور پیش کرنا ہے مگر پھر وہی ہوا۔ جو اکثر کالم نگاروں کے ساتھ ہوتا ہے کہ روز کے روز ہونے والے واقعات جن کے لئے ہم کرنٹ افیرز کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، ان میں کالم نگار کا قلم الجھا رہتا ہے، سو 17اکتوبر گزر گیا۔ ایک روز افتخار عارف صاحب سے فون پر بات ہو رہی تھی تو کہنے لگے کہ سعدیہ بی بی ہم سے تو سرسید بھی یاد نہ رکھے گئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام کو سو برس بیت گئے مگر ہمارے ہاں اس کا کہیں تذکرہ نہیں ہوا۔ میں ٹی وی چینلز دیکھتا رہا۔ اخبار دیکھتا رہا نہ مجھے سرسید کا تذکرہ ملا نہ علی گڑھ یونیورسٹی کے سو برس بیت جانے پر کوئی تاثرات ملے۔ علی گڑھ یونیورسٹی ایک تعلیمی ادارے کا نام تھوڑی ہے، یہ ایک دانش گاہ کا نام ہے، ایک تہذیب اور ایک نظریے کا نام ہے۔ سرسید بہت بڑے آدمی تھے۔ برصغیر میں وہی مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے علمبردار تھے۔ ان جیسا اور کون ہے۔ افتخار عارف شائستگی اور تہذیب میں گندھے ہوئے دھیمے سے لہجے میں بول رہے تھے اور میں دل ہی دل میں شرمندہ ہو رہی تھی کہ سرسید کے یوم پیدائش کے حوالے سے سوچ رکھا تھا کہ کالم ضرور لکھنا ہے لیکن پھر کسی کرنٹ ایشو نے جکڑ لیا اور بات ذہن سے نکل گئی۔
اسی شام اپنی لائبریری کا رخ کیا۔ جہاں کتابوں کی قطار میں رکھی ہوئی خطبات سرسید اٹھائی۔ گرد جھاڑی اور دل میں خود کو ایک بار پھر کوسا کہ ہم کن سطحی معاملات میں اپنے شب و روز راکھ کرتے جا رہے ہیں جو سنہرے لوگ یاد رکھنے ہیں جو جگمگاتی باتیں، دھرانے کی ہیں انہیں بھلا کر لایعنی بے مقصد ہائو ہو کا شکار ہو چکے ہیں۔ خطبات سرسید سات سو صفحات کی ایک ضخیم کتاب ہے۔ اسے مجلس ترقی ادب نے چھاپا ہے۔ ایسی کتابیں عموماً ہم اپنی لائبریریوں میں ریفرنس بک کی حیثیت سے رکھ چھوڑتے ہیں کہ جب ریفرنس کی ضرورت پڑے گی تو کتاب کھول لیں گے۔ اسی لئے میں نے بھی اس سے پہلے خطبات سرسید کو اس توجہ سے نہیں پڑھا تھا۔ مسلم دنیا کے عملیت پسند مصلح اور مفکر سرسید احمد خان نے خطبات کو مرتب کرنے والے ہیں شیخ اسماعیل پانی پتی خطبات سرسید کو پڑھ کر آپ اس نابغہ روزگار شخصیت کے عشق میں مبتلا ہو جائیں گے۔ محو حیرت ہوں کہ وہ ایک شخص تھا کہ پورا ادارہ۔ ایک دبستان ایک جہان۔ جو بیک وقت خواب، ولولے جوش اور عمل سے بھرا تھاجبکہ ہم نے اپنی ہوش میں گفتار کے غازی ہی دیکھے ہیں عمل کے نام پر جہاں قول و فعل کے تضاد کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا۔ جنہیں ہمارے ہاں سیاسی رہنما کہا جاتا ہے وہ اپنے مفاد کے اسیر ہوس زر سے بھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے Lilli Putians(بونے) ہیں۔ رہنما کا لفظ تو سرسید احمد خان جیسی قد آور شخصیات کو زیبا ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد، مسلمانوں کی حالت زار بدترین پسماندگی کو چھو رہی تھی۔ بس مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے والی صورت حال تھی۔ اس راکھ میں سے چنگاری تلاش کر کے بھڑکتا ہوا شعلہ بنانے کی کٹھن تگ و دو میں مصروف سرسید احمد خان نے کیا نہیں کیا!مسلمانوں کو تعلیم اور پھر جدید تعلیم کی طرف لانے کے لئے سرسید احمد خان نے متحدہ ہندوستان کے دور دراز شہروں کے دورے کئے اور اپنی شعلہ بیانی سے اس راکھ میں موجود چنگاریوں کو مہمیز دی۔ ایک کالم کیا ایک کتاب بھی سرسید کی کوششوں کا احاطہ نہیں کر سکتی۔
سرسید کیسی دبنگ اور پراثر شخصیت رکھتے تھے کہ ان کے ہم عصروں نے بھی ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے مضامین لکھے۔ اشعار اور نظمیں لکھیں اور ہم عصر بھی کون مولانا الطاف حسین حالی جیسی نابغہ روزگار شخصیت نے بارہاسرسید احمد خان کی شخصیت کو زبردست الفاظ میں سراہا۔ سرسید کی سوانح عمری حیات جاوید لکھی ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے۔ 29دسمبر کو جو لیکچر سید صاحب نے راجہ دھیان سنگھ کے دیوان خانے میں دیا وہ سماں مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔ سامعین پر ایک سکتے کا سا عالم تھا۔ کوئی مسلمان ایسا نہ تھا جو زارو قطار نہ روتا ہو اور اپنی بساط سے بڑھ کر چندہ دینے پر آمادہ نہ ہو۔ خود سرسید احمد خان بھی مولانا حالیؔ کی مسدس حالی کے عاشق تھے۔ ایک بار کہا کہ جب قیامت میں خدا مجھ سے پوچھے گا کہ تو کیا لایا؟ تو کہہ دوں گا کہ حالی سے مسدس لکھوا لایا ہوں اور کچھ نہیں۔ اللہ اللہ کیا وقت ہو گا ایسی قد آور شخصیت بھی مسلمانوں میں پیدا کیں اور اب دیکھیں تو کیسا قحط الرجال ہے۔ سرسید کے ایک خطبے کا ٹکڑا دیکھیے۔
"صاحبو! میں دن رات اس غم میں اپنی زندگی بسر کرتا ہوں کہ انسان کی زندگی کا کچھ بھروسا نہیں جب مرے کوچ کا وقت آن پہنچے گا کون شخص اس تمام بوجھ کو اٹھاوے گا؟ جب تک مری زندگی ہے یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا کہ اپنی قوم کو کنویں میں گرتا دیکھوں اور چپکا بیٹھا رہوں "۔ اسی قوم کے غم میں سرسید احمد خان نے تھیٹر پر ناچ کر بھی چندہ جمع کیا۔ تنقید ہوئی، ملحد ٹھہرائے گئے، دشنام طرازیاں برداشت کیں۔ مگر ایک خواب کی بنیاد علی گڑھ تحریک کی صورت میں رکھ دی۔ سرسید اگر مسلمانوں کو انگریزی زبان کی تعلیم اور سائنس کے جدید علم کی طرف راغب نہ کرتے تو راکھ کے اس ڈھیر میں موجود آخری چنگاریاں بھی بجھ جاتیں۔ یہ عظیم رہنما جب دنیا سے رخصت ہوا تو کفن دفن کے لئے چندہ مانگنا پڑا۔ برصغیر کے مسلمانوں پر سرسید احمد خان کے ناقابل بیان احسانات ہیں اور ہمارے پاس سرسید کو یاد کرنے کی بھی فرصت نہیں۔