برطانوی ہائی کمشنر اور ہمارے رویے
گلیوں میں بکھرے ہوئے کوڑے کے ڈھیر، وہاں کے رہنے والوں کی ناامیدی کا بدصورت ترین اظہار ہیں۔
ایک انگریزی زبان کے مضمون میں یہ سطر پڑھی تو گویا چونک کے رہ گئی۔ رک گئی اور دوبارہ پڑھا۔ کوڑا کرکٹ، گندگی، بے ترتیبی اور پھیلاوے کے حوالے سے کبھی اس تناظر میں سوچا تھا اور نہ کبھی پڑھا، ذرا غور کیا تو بات سوفیصد سچی تھی۔ لاس اینجلس کا رہنے والا اینڈرسن اپنے علاقے میں کمیونٹی کلین اپ کا ایک پراجیکٹ چلاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ 1960ء میں جب وہ نویں گریڈ کا ایک طالب علم تھا، تو اس کا استاد ایک روز کلاس کے سارے بچوں کو قریبی پارک میں لے کر گیا، سب بچوں نے پارک میں کھیلا اور پھر اپنے ساتھ لائے ہوئے لنچ باکس کھول کر کھانے پینے لگے۔ ان میں سے ایک بچے نے کھانا کھانے کے بعد جوس کا خالی ڈبہ پارک میں ہی ایک طرف اچھال کر پھینک دیا۔ استاد نے اس پر سخت برا منایا اور کہا کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ لڑکے نے جواب دیا کہ جب میرے گھر کے باہر کوڑا اٹھانے کا مناسب انتظام نہیں ہے، تو میں کیوں کمیونٹی پارک کی صفائی کا دھیان رکھوں۔ اس بات سے اس طالب علم کا سماج اور کمیونٹی سروس کے خلاف غصے کا اظہار ہوتا تھا۔ پارک میں موجود استاد نے اسی تناظر میں تمام طالب علموں کو سمجھاتے ہوئے، یہ جملہ کہا تھا کہ گلیوں میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر۔ گندگی اور صفائی کا نہ ہونا وہاں کے رہنے والوں کی ناامیدی کا بدترین اظہار ہے۔
میرا ذھن اپنے ہم وطنوں کی طرف چلا گیا۔ کوڑے کے ڈھیر سے تعفن زدہ میرا شہر لاہور، جہاں گلیاں، سڑکیں، محلے، شاہراہیں۔ جابجا کوڑے کے ڈھیر سے بدصورت نظر آتی ہیں۔ تو یہ سب ہماری ناامیدی کا اظہار ہے۔ راولپنڈی سے لاہور ٹرین سے آئیں، تو جوں ہی ریل گاڑی لاہور کی حدود میں داخل ہوتی ہے۔ ٹرین کے دونوں جانب کوڑے کی ڈھیروں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ خاکستری زمین کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ کجا کہ نظروں کی تقویت کے لئے سبزہ دکھائی دے۔ بس کوڑے کے ڈھیر سے اٹھتے بدبو کے بھبھکے شہر لاہور آنے والوں کا استقبال کرتے ہیں۔ زیادہ آبادی گنجان شہر اور صفائی کا ناقص انتظام مل کر بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔ صرف لاہور ہی کا نہیں وطن عزیز ہیں۔ کم و بیش ہر چھوٹے بڑے شہر قصبات اور دیہاتوں کا حال کچھ ایسا ہی ہے کہیں کہیں صفائی کی پاکٹس بھی موجود ہیں مگر مجموعی طور پر ہم پاکستانی صفائی پر ایمان نہ رکھنے والی قوم ہیں۔ اگرچہ ایک حدیث کا مفہوم ہم سب کو زبانی یاد ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔
اس کے باوجود ہماری جینز میں کوئی ایسی میوٹیشن (mutation) ہو چکی ہے کہ ہم صفائی سے دور بھاگتے ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں گھروں کی صفائی کر کے کوڑا گھر کے باہر پھینک کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ صفائی کر لی۔ سیرو تفریح کے لئے تیار ہو کر تفریحی مقامات پر جاتے ہیں۔ کھاتے پیتے ہیں، سلفیاں کھینچتے ہیں اور اپنی آمد کی نشانی کے طور پر اپنا گند وہیں پھینک کر آ جاتے ہیں۔ ہم سبزہ زاروں، ساحلوں اور پارکوں کو آلودہ کرنے والی مخلوق ہیں۔ ہم تو مسجدوں کو نہیں بخشتے۔ فیصل مسجد کی سیڑھیوں کے ساتھ ساتھ جوس کے خالی ڈبے، چپس کے ریپر، کیلے، کینو کے چھلکے کوڑے سے بھرے ہوئے شاپر دیکھ کر اس قوم کے تہذیبی افلاس پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ گند پھیلانے کے معاملے میں ہم اس قدر ڈھیٹ قوم ہیں کہ ہمیں شرم دلانے کو برطانوی ہائی کمشنر، سرکرسچن ٹرنر مارگلہ کی پہاڑیوں پر پاکستانیوں کے پھیلائے ہوئے گند کو اکٹھا کرکے بوریوں میں بھرنا ہے۔ پھر اپنی ایک تصویر بنوانا ہے اور اس کو ٹوئٹر پر اس عنوان کے تحت لگاتا ہے۔ صفائی نصف ایمان ہے، تصویر میں وہ پاکستانیوں کے پھیلائے ہوئے گند کو اٹھا کر کھڑا ہے اور پورے کا پورا سوالیہ نشان دکھائی دیتا۔ جیسے پوچھ رہا ہو، صفائی نصف ایمان پر یقین رکھنے والے ایسے گند پھیلاتے ہیں۔؟ ایسے اپنی سرزمین کے ساتھ یہ بدسلوکی کرتے ہیں؟ تین دن سے برطانوی ہائی کمشنر کی یہ تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ ہم لوگ اس پر دلچسپ تبصرے کر رہے ہیں کمنٹس لائکس اور شیئرنگ کی بھرمار ہے۔ بس اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ سوشل میڈیا کا نشہ ہماری قوم کو مفلوج کر چکا ہے۔ ہم گفتار کے غازی بن چکے ہیں، باتوں کی توپوں اور بندوقوں سے ہم کشتوں کے پشتے لگا سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہم سے بڑا تہذیب یافتہ، اخلاقیات کا دیوتا اور دانشور اور کوئی نہیں۔ میرے پاکستانیو!ہمیں عملی میدان میں نکلنے اور کچھ کرنے کی ضرورت ویسا ہی عملی میدان جیسے برطانوی ہائی کمشنر نے مارگلہ کے سرسبز پہاڑیوں سے لوگوں کے پھیلائے ہوئے گند کو اکٹھا کرنے کا تردد کیا۔ سوشل میڈیا کے نشے کو چھوڑ کر حقیقی زندگی میں کچھ کریں۔ ہمیں اپنی اپنی سطح پر گلی محلوں میں۔ کمیونٹی کلین اپ مہم شروع کرنی چاہیے۔ اپنے گلی محلوں میں چھوٹے چھوٹے کمیونٹی صفائی کے گروپ بنائیں۔ ہماری سوچ یہ ہے کہ لوگ کوڑا اٹھانے والوں کو مہینے کے دوسو نہیں دیں گے، مگر اپنے گھر کے باہر کوڑے کا ڈھیر برداشت کر لیں گے اس سوچ سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ میں تو کہتی ہوں کہ لاہوریوں کو بھی کوڑے کے ڈھیروں کے خلاف اپنی مدد آپ کے تحت کچھ کرنا ہو گا۔ ضلعی انتظامیہ مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اور اگر ایک مستعد انتظامیہ شہر میں صفائی کے حوالے سے کام کر بھی رہی تو بھی ایک عام شہری اپنی ذمہ داری سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔ ایک المیہ ہمارا یہ بھی ہے کہ ہم بطور شہری ذمہ داری لینے کو تیار نہیں اور تمام تر بوجھ ریاست کی انتظامیہ پر ڈالنا چاہتے ہیں۔
مسجد کا منبر ہو یا میڈیا دونوں سماج کے شعور پر اثر اندازہونے والے پلیٹ فارم میں صفائی کی آگاہی کی مہم ہر ایسے پلیٹ فارم سے شروع ہونی چاہیے جو ریاست کے فرد کی سوچ کو بدلنے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ برطانوی ہائی کمشنر کے شرم دلانے پر میرا خیال ہے کہ ہمیں کچھ شرم کر ہی لینی چاہیے!!