علمی زوال
جب کسی معاشرے پر زوال آتا ہے تو ہر سطح پر آتا ہے، معاشرے کا کوئی ایک بھی طبقہ یا میدان ایسا نہیں ہوتا جو زوال کے آسیب سے خود کو بچا سکے۔ تعلیم وہ واحد چیز ہے جو کسی معا شرے کو زوال کی پستی سے واپس اٹھا سکتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان دو ایٹم بم کھا کر مسمار ہو چکا تھا یہ انسانی تاریخ کے دو مہلک ترین زخم تھے جو ایک قوم کو ایک ہی ہفتے میں لگے تھے۔ جاپانیوں کا حوصلہ زمین سے جا لگا تھا۔ کچھ ایسا ہی حال جرمنی کا بھی تھا۔ اس پر ایٹمی حملے تو نہیں ہوئے تھے لیکن پے در پے بمباری نے اسے بھی ملبے کا ڈھیر بنا دیا تھا۔ ایسے میں دونوں جگہ فاتحین نے جنگ بندی شرائط عائد کیں تو وہ بھی اسی حساب سے رسوا کن تھیں۔ جاپان نے ہر شرط مان لی مگر دو چیزوں پر سمجھوتے سے صاف انکا رکردیا۔ ایک نظام حکومت اور دوسرا نظام تعلیم۔ جرمنی نے تین چیزوں پر سمجھوتے سے انکار کیا۔ پہلی جرمن شناخت، دوسری نظام حکومت اور تیسری تعلیم۔ آج پوری دنیا دیکھ رہی ہےکہ یہ دونوں ممالک نہ صرف یہ کہ از سر نو تعمیر ہو چکے، بلکہ جاپان دنیا کی تیسری بڑی اور جرمنی چوتھی بڑی معیشت بن چکا ہے۔ جرمن معیشت میں سروسز سیکٹر کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے تو جاپانی معیشت میں یہ حیثیت صنعت کو حاصل ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ممالک لکیر کے فقیر نہیں بلکہ اپنے حالات، ماحول اور دستیاب وسائل کو پیش نظر رکھ کر اپنی ترقی کی راہ متعین کر کے آگے بڑھ رہے ہیں۔ غور کیجئے اگر یہ دونوں ممالک اپنے تعلیمی نظام پر سمجھوتہ کر لیتے تو کیا یہ آگے بڑھ سکتے تھے؟ ۔ کوئی شک ہی نہیں کہ بار بار کی مداخلت سے ان کے تعلیمی نظام کا حال بھی وہی کردیا جاتا جو ہمارے تعلیمی نظام کا کیا گیا۔ اگر ہم تاریخی طور پر دیکھیں تو ازمنہ رفتہ میں ہم مسلمانوں کے دو علمی شہر تھے، بغداد کی تمام نیک نامی اسلامی علوم سے تھی تو اندلس کی تمام شہرت سائنسی علوم سے۔ ان دونوں شہروں کے مزاج اور کام میں انفرادیت کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ جب اندلس میں کوئی اسلامی کتب بیچنے آتا تو اسے بغداد جانے کا مشورہ دیا جاتا کہ وہاں اچھے داموں فروخت ہوجائیں گی، جبکہ بغداد میں اگر کوئی اپنے آلات فروخت کرنا چاہتا تو اسے اندلس جانے کا مشورہ دیا جاتا کہ ان کے قدردان وہاں پائے جاتے تھے۔ بغداد کے ماحول پر مذہبی رنگ غالب تھا جبکہ اندلس کا معاشرہ نسبتاََ آزاد اور کھلا ڈلا تھا۔ ہماری بد بختی کہ پہلے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بج گئی اور اس کے بعد مسلم سپین بھی مسلسل حملوں کی زد میں آ گیا، بالآخر وہ بھی ہاتھ سے گیا۔ بغداد کا علمی ذخیرہ دریائی مچھلیوں کی خوراک بن گیا جبکہ اندلس میں ساری علمی میراث دشمن کے قبضے میں چلی گئی، دونوں ہی جگہ اہل علم کی بڑی تعداد ذبح کردی گئی یا دربدر کردی گئی۔ دینی علوم کے حوالے سے چونکہ جزیرۃ العرب، سینٹرل ایشیا اور برصغیر میں بھی کام موجود تھا اس لئے وہ مکمل فنا کے گھاٹ تو نہ اترا لیکن بغداد چونکہ عرب اور عجم کا جغرافیائی ہی نہیں علمی سنگم بھی تھا۔ چنانچہ اس کے ٹوٹنے سے ایسانقصان ہوا جو آج بھی اپنے مہلک اثرات برقرار رکھے ہوئے ہے۔ دوسری طرف سائنسی و فنی علوم میں تو ہمارا جنازہ ہی نکل گیا کیونکہ اندلس اس کا واحد مرکز تھا جس کی تباہی نے ہمیں ناقابل تلافی نقصان سے دو چار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ذاتی طور پر دینی علوم کا طالب علم ہونے کے باوجود میں اندلس میں ہونے والے علمی نقصان کو مسلمانوں کا سب سے بڑا نقصان سمجھتا ہوں۔ اور یہی وہ نقصان ہے جس نے پچھلے پانچ سو سال سے ہمیں زوال کا شکار رکھا ہوا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پانچ سو سالہ زوال بھی ہم میں احساس زیاں بیدار نہ کر سکا۔ یورپین ریویو فار میڈیکل اینڈ فارماسیوٹیکل سائنسز، یورپ سے شائع ہونے والا میڈیکل سائنس کا معتبر پندرہ روزہ جریدہ ہے۔ 2014ء کے آغاز میں اس جریدے نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستانی یونیورسٹیوں میں سائنس کے حوالے سے جو گھسا پٹا معیار چلا آرہا تھا وہ بھی 2008ء کے بعد سے خطرناک حد تک زوال سے دوچار ہے۔ کسی بھی ملک کی سائنسی پیش رفت کا بنیاد ی اندازہ اس ملک کی سائنسی درسگاہوں سے سامنے آنے والے تحقیقی مقالوں کے معیار اور تعداد سے لگایا جاتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 1998ء سے 2014ء تک کے عرصے کے دوران امریکہ میں ستر لاکھ سائنسی مقالے شائع ہوئے جو فہرست میں اس کے بعد کے چار ممالک چین، برطانیہ، جرمنی اور جاپان کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اسی عرصے میں پاکستان سے صرف اٹھاون ہزار مقالے شائع ہوئے جبکہ ہمارے پڑوسی ممالک میں سے بھارت میں ساڑھے سات لاکھ اور چین میں چھبیس لاکھ مقالے شائع ہوئے۔ اس حوالے سے چین کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ چینی ریسرچر کا مقالہ کسی بین الاقوامی سائنسی جریدے میں شائع ہو نے پر چینی حکومت ریسرچر کو تیس ہزار ڈالر انعام دیتی ہے۔ دوسری طرف ہماری حالت یہ ہے کہ 2008ء کے دوران پاکستان میں دس ہزار سائنسی مقالے شائع ہوئے تھے، جبکہ 2012ء میں یہ تعداد پانچ ہزار سے بھی نیچے چلی گئی تھی۔ اور موجودہ صورتحال کیا ہے؟ خدا ہی جانے کیونکہ ہمارے ہاں اس قسم کا ڈیٹا پابندی سے شائع کرنے کا کوئی نظام ہی نہیں ہے۔ المیہ نہیں کہ قومیں دوسری جنگ عظم کے ملبے سے اٹھ کر تعمیر ہوگئیں اور ہم اسی زمانے میں آزاد ہوکر وہیں کے وہیں کھڑے ہیں؟