Eid
عید
شاہد انتہائی محنتی اور پڑھالکھا نوجوان تھا۔ اس نے انجینرنگ کی تعلیم حاصل کی ھوئی تھی۔ کافی عرصہ نوکری کیلئے دھکے کھاتارہا لیکن اسے کوئی مناسب نوکری نہ مل سکی۔ اکثرجگہ کام زیادہ لیا جاتا تھا اور تنخواہ کم دی جاتی تھی۔ اسی دوران یکے بعد دیگرے اس کے والد اور والدہ فوت ھوگئے۔ اس پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اس کا ایک ہی بھائی تھا جو اس سے بڑاتھا۔ اس کی شادی ھوچکی تھی۔ اب وہ اس کے ساتھ رہنے لگا لیکن والدین کی وفات کے بعد اس کا دل یہاں نہیں لگتا تھا، اس لئے بہتر مستقبل کی خاطر وہ کینیڈا سدھارگیا۔
شاہد کا کینیڈا میں کام چل نکلا تو اس نے وہیں شادی کرلی اور پھر پلٹ کر خبر ہی نہ لی۔ بس کبھی کبھار اپنے بھائی کو فون کرلیتا تھا اور خیروعافیت معلوم کرلیتا تھا۔
شاہد نے کینیڈا میں بہت ترقی کی۔ اس نے تگ ودو کرکے اپنا ذاتی کاروبار کرلیا تھا جس سے خاصی معقول آمدنی ھوتی تھی۔ اگرچہ وہ وہاں بہت خوش تھا لیکن پھر بھی اپنے دیس کی اسے یاد ستاتی رہتی تھی۔ اپنے لوگ اور گزرا ھوا وقت یاد آتا تھا۔ خاص طور پر عیدین کے مواقع پر اسے وطن کی یاد بہت بے چین کردیتی تھی۔
کینیڈا میں اگرچہ کئی ہم وطن لوگ مقیم تھے لیکن یہاں عید کے دن کے گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتاتھا۔ کوئی گہماگہمی دیکھنے کو نہیں ملتی تھی۔ نہ وہ سویاں، نہ وہ رنگ برنگے کپڑے اور نہ ہی یاردوستوں کی خوش گپیاں۔ اس کا بڑا بھائی فون کرتارہتا تھا کہ کبھی پاکستان کا چکر لگا جاؤ۔ اس کا دل پاکستان جانے کو بے چین رہتا تھا لیکن کاروباری مصروفیات آڑے آتی تھیں۔ آخر اس کے ارادوں نے اس کی مصروفیات کو شکست دے دی اور اس نے پاکستان کا قصدکیا۔
آج تقریبا" دس سال بعد وہ عید کے موقع پر پاکستان جارہاتھا۔ وہ بہت خوش تھا۔ اسے یہ سوچ کر بہت خوشی ھورہی تھی کہ وہ اتنے عرصے بعد روایتی انداز میں عید منائے گا۔ وہ جہاز میں سوار ھوا تو ماضی کی یادوں میں کھوگیا۔ پاکستان میں گزری ھوئی عیدوں کے مناظر اس کے ذہن میں تازہ ھونے لگے۔۔
رمضان کے آخری عشرے میں عید کی تیاریاں زوروشور سے شروع ھوجاتی تھیں۔ اس کی والدہ محلے کی دوسری عورتوں کے ساتھ مل کر سویاں بناتی تھی۔۔ کوئی آٹا گوندھتی، کوئی ہاتھ والی مشین چلاتی۔۔ کوئی سویوں کے لچھے دھوپ میں رکھی چارپائی پر پھیلانے جاتی۔۔ آخری عشرے میں بازاروں میں رش بڑھ جاتا تھا۔ بچے کھلونے خریدتے جبکہ بڑے کپڑے، جوتے اور عید کا راشن خریدتے۔۔ آخری عشرے میں سلائی کڑھائی کا کام عروج پر ھوتا تھا۔۔ بڑی عورتیں سلائی کا کام کرتیں جبکہ نوجوان لڑکیاں ان پر کڑھائی کا کام کرتیں۔ ساتھ ساتھ لڑکیاں مل کر خوشی کے گیت گاتیں اور اپنے بھائیوں کے سہرے کہتیں۔ بازار سے عیدکارڈ خریدے جاتے جو دوستوں اور رشتہ داروں کو بڑے اہتمام سے بھیجے جاتے۔۔ صاحب ثروت لوگ عید سے پہلے ہی غریبوں کے گھروں میں کپڑے، راشن، عیدی اور فطرانہ وغیرہ بھیج دیا کرتے تھے۔۔ کسی غریب کو مانگنے کیلئے کسی کے دروازے پر نہیں جانا پڑتا تھا۔ ہر کوئی اس کوشش میں ھوتا تھا کہ غریبوں کو اپنی خوشیوں میں زیادہ سے زیادہ شریک کرے۔۔ چاندرات کو تو جشن عروج پر ھوتا تھا۔ نوجوان لڑکے آتش بازی کرتے۔۔ لڑکیاں ایک دوسرے کو مہندی لگاتیں۔۔ بزرگ ایکدوسرے کے گھروں میں عید مبارک کہنے آتے۔۔ خوبصورت روایات کے زیر اثر خوب گہما گہمی ھوتی تھی۔۔
شاہد کے خیالات کا سلسلہ اس وقت ٹوٹا جب جہاز پاکستان کی سرزمین پر لینڈ کرچکا تھا۔ جہاز سے اتر کر اس نے خوشی سے زمین پر سجدہ کیا۔ اس کا بڑا بھائی اسے لینے کیلئے ائیرپورٹ آیا ھوا تھا۔ وہ بھائی کے ساتھ گھر پہنچا تو ہر طرف غیرمتوقع خاموشی چھائی ھوئی تھی۔ اسے عید کی کوئی گہماگہمی دکھائی نہیں دی۔۔ بچے ٹی وی پر کارٹون دیکھ رھے تھے۔۔ اس کی بھتیجیاں موبائل فون پر گیمز کھیل رہی تھیں۔۔ اس نے گھر میں کہیں بھی نہ بچوں کے کھلونے دیکھے نہ عیدکارڈ۔۔ نہ کوئی سلائی کڑھائی کرتا دکھائی دیا۔۔ نہ گیتوں کی آواز کانوں میں پڑی۔۔ گھر میں ہر سو تنہائی کا احساس جاگزیں تھا۔
شاہد نے بڑے بھائی سے پوچھا "پرسوں عید ہے لیکن کوئی گہماگہمی نظر نہیں آرہی ہے"۔
اس کے بڑے بھائی نے افسردگی سے جواب دیا"وہ پہلے والی عیدیں اور عیدیں منانے والے لوگ چلے گئے ہیں۔۔ مہنگائی اور بیروزگاری بڑھ گئی ہے۔۔ اب لوگوں کے پاس نہ وقت ہے اور نہ پیسہ۔۔ ہرکوئی اپنی محدود دنیا میں گم ہے۔۔ عمومی طور پر لوگ عید بھی سوکر گذارتے ہیں"۔
شاہداداس ھوگیا۔ اسے اپنی ماں اور گزری ھوئی عیدیں یاد آرہی تھیں۔ وہ بھائی سے بولا"کینیڈا میں مجھے اماں والی سویاں جو وہ اپنے ہاتھوں سے آٹے سے تیار کرتی تھیں، بہت یاد آتی تھیں۔ وہ سویاں تو بنائی ہیں نا؟"
بڑا بھائی بھی ماں کے ذکر پر اداس ھوگیا تھا۔ وہ بولا"میرے بھائ! وہ ساری پرانی روایتیں ختم ھوگئی ہیں۔ آج کل وہ سویاں نہ کوئی بناتا ہے اور نہ کوئی کھاتا ہے۔ ہرکوئی بازار سے بنی بنائی سویاں خریدتا ہے"۔
شاہد کے سارے خواب چکناچور ھوگئے تھے۔ وہ دل ہی دل میں پاکستان آنے پر پچھتارہاتھا۔۔
اگلے دن وہ دل بہلانے کو محلے میں نکل گیا۔ اس کا بچپن یہیں گزراتھا۔ وہ اپنی پرانی یادیں تازہ کرنا چاہتا تھا۔ کل عید تھی لیکن محلے میں اسے کوئی چہل پہل نظر نہیں آرہی تھی۔ ہرطرف عجیب سی افراتفری تھی۔ سامنے والے گھر میں ایک نوجوان دروازے پر فطرانہ مانکنے آئے دو بچوں کو گالیاں اور دھکے دے رہا تھا۔۔
شاہد کو ان بچوں پر ترس آیا۔ اس نے اپنی جیب سے کچھ نوٹ نکال کرانہیں دے دیے۔ وہ اپنے پرانے دوست شہاب کے گھر گیا تو پتہ چلا کہ اس کے حالات آج کل خراب ہیں۔ وہ محلے میں شاذونادر نظر آتا ہے۔ صبح کام پر نکلتا ہے اور شام کو تھکاہارا گھر آکر سوجاتا ہے۔ کل عیدتھی لیکن وہ آج بھی کام پر گیاھوا تھا۔۔
گلی کے نکڑ پر شیدے کا ھوٹل ھوتاتھا جہاں محلے دار بیٹھ کر چائے پیاکرتے اور گپ شپ کرتے تھے۔ یہ ھوٹل محلے کا ثقافتی مرکز تھا لیکن اب اس ھوٹل کی جگہ پر ایک ماڈرن کیفے تعمیر ھو گیا تھا جس میں زرق برق لباس پہنے چند بیرے پھررہے تھے۔۔ یہ خوبصورت کیفے بھی گاہکوں سے خالی تھا۔ وہ چلتے چلتے بازار پہنچ گیا۔ لوگوں کا رش تو تھا مگر خریدار بہت کم تھے۔ اکثر لوگ صرف چیزوں کو دیکھ کر آگے گزر جاتے تھے۔۔
بازار میں ایک جگہ کچھ لوگوں نے پرس چھین کر بھاگنے والے لڑکے کو پکڑا ھواتھا اور پولیس کو فون کرکے بلارھے تھے۔۔
بازار کے بڑے چوک میں معمولی تلخ کلامی پر کچھ لوگ ہاتھاپائی پر اترے ھوئے تھے اور بے دردی سے ایکدوسرے کو ماررھے تھے۔۔
شاہد یہ حالات دیکھ کر دلبرداشتہ ھوگیا تھا۔ اسے لگاکہ وہ زندہ انسانوں کے قبرستان میں آگیا ہے اور اس کے اردگرد چلتی پھرتی لاشیں اسے حیرانی سے دیکھ رہی ہیں۔۔
اسے اپنی ماں کی کہی ھوئی بات یاد آگئی۔ محلے میں جب بھی کوئی مصیبت یا آفت آتی تو اس کی ماں کہا کرتی تھی"کوہ قاف سے کوئی کالادیو آگیا ہے"۔
وہ ادھر ادھر دیکھ کر کالا دیو تلاش کررہا تھا لیکن اسے کوئی کالادیو نہ ملا۔
اسے خبر نہ تھی کہ ان گنت کالے دیو انسانی شکل میں اس کے چاروں طرف پھیلے ھوئے تھے۔