Aik Chiragh Aur Aik Kitab
ایک چراغ اور ایک کتاب
معروف صحافی روف کلاسرا کہتے ہیں جو شخص کتابیں نہیں پڑھتا، اسے کوئی نئی بات سمجھانا انتہائی مشکل ہے۔ آسان الفاظ میں وہ شخص اختلاف رائے برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ پرنٹنگ پریس کی ایجاد ہی تھی جس نے عام لوگوں تک کتابوں کی صورت میں دانش کے حصول کو ممکن بنایا۔
ایک مفکرنے کمال کی بات لکھی "مطالعے سے بے نیاز قومیں دھرتی کا بوجھ ہوتی ہیں یہ علم ہی ہے جو معاشرے کو معتبر کرتا ہے"۔
روف کلاسرا کی بات کو گہرائی میں سمجھیں تو آج پاکستان میں عدم برداشت کے کلچر کو ختم کرنے کے لیے کتابوں کے مطالعے سے بہتر کوئی چیز نہیں۔
کراچی انٹرنیشنل بک فیئر پچھلے ہفتے ختم ہوا۔ کتابوں کی طلسماتی دنیا۔۔
کبھی آنکھیں کتاب میں گم ہیں
کبھی گم ہےکتاب آنکھوں میں
اس کتاب میلے کا احوال آپ بہت سے لکھاریوں کی تحریروں میں پڑھ چکے ہیں۔ کتابوں کی فروخت کے حوالے سے علی اکبر ناطق نے بتایا کہ ان کی 15 کتابیں اس میلے میں رکھی گئی تھیں اور اس بک فیئر کے چوتھے ہی دن ان میں سے آٹھ کتابوں کی تمام کاپیاں فروخت ہو چکی تھیں۔ علی اکبر ناطق کے علاوہ میری ملاقات سینیئر صحافی محمود شام اور ناول نگار محمد اقبال دیوان سے ہوئی۔ بک کارنر جہلم کے گگن شاہد اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ موجود تھے سب سے زیادہ رش بک کارنر کے سٹال پر ہی نظر آیا۔ دارالسلام پبلیکیشنز اور سٹی بک کارنر کے سٹال بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز تھے۔ محمود شام صاحب کی لکھی ہوئی بچوں کی کتاب "چڑیا کہانی" میرے سامنے موجود ہے۔ ایک بڑے قلم نگار کی طرف سے بچوں کے لیے خصوصی تحریر۔
آج کے اس کالم میں پاکستانی رائٹرز کی کتابوں سے منتخب کردہ کچھ خاص توشے آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔
1۔ مہذب لوگوں کا مشاہدہ تیز، بیان مختصر اور جامع اور یاداشت بڑی بر وقت ہوتی ہے۔
2 جاپان، یورپ اور امریکی ممالک میں ایئرپورٹ پر نائٹ کرفیو لگ جاتا ہے شہریوں کی نیند میں خلل نہ پڑے اس وجہ سے رات کی فلائٹس پر پابندی لگ جاتی ہے۔
3۔ دی ٹرمینل نامی فلم ایک حقیقی واقع سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے۔ مہران کریمی نام کا ایک نوجوان جو ایران سے بے دخل کیے جانے کی وجہ سے پیرس کے چارلس ڈی گال ایئرپورٹ پر آن اترا تھا وہ بھی بغیر سفری دستاویزات کے اسے اٹھارہ سال تک ایئرپورٹ کے ٹرانزٹ لاؤنج میں رہنا پڑا تھا۔
4۔ فائٹر پائلٹ کی طرز پر یورپی اور امریکی مردوں کا نگاہ ڈالنے کا انداز ہوتا ہے کہ کم وقت میں زیادہ دیکھو۔
5۔ گورا ٹورسٹ بجٹ ٹریولر ہوتا ہے ٹوٹل کنگلا پارٹی۔
6۔ مسئلے پر بحث کرنے کی بجائے، وہی وقت مسئلے کا حل ڈھونڈنے میں صرف کرو۔ امریکہ نے جاپان پردو دفعہ ایٹم بم گرائے مگر کانگرس اور سینٹ میں بحث ایک دفعہ بھی نہیں کی۔
7۔ ٹوٹے ہوئے ازدواجی درد کی سوئی سے جڑے رہنے کی بجائے آؤٹ آف دی باکس جا کر اس مسئلے سے باہر نکلا جائے۔
میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں، تیری آس، تیرے گمان میں
صبا کہہ گئی میرے کان میں، میرے ساتھ آ، اسے بھول جا
8۔ لوگ جب آپ کی زندگی سے نکل رہے ہوتے ہیں تو وہ اپنا جرم بھی آپ کے کھاتے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔
9۔
کہیں ایسا نہ ہو یا رب کہ یہ ترسے ہوئے عابد
تیری جنت میں اشیاء کی فراوانی سے مر جائیں
افضل خان
10 لوزرز سے جان چھڑانے ہی میں بہتری ہے۔
11۔ زندگی کے سب سے بڑے فیصلے آپ بہت کم وقت میں کرتے ہیں۔
12۔ حواس خمسہ کی رو سے شراب پیتے وقت آپ اسے دیکھ سکتے ہیں، چکھ سکتے ہیں، سونگھ سکتے ہیں، چھو سکتے ہیں، صرف سن نہیں سکتے، سماعت کا یہی بھرم قائم کرنے کے لیے جام ٹکرائے جاتے ہیں۔
13۔ اسے معاملات کو ایک خوبصورت موڑ پر مد مقابل کو کسی بد سلوکی کا احساس دلائے بغیر خود کو جدا کرنے کا ہنر پہلے بھی آتا تھا۔
14۔ عورت مرد کے ہر تعلق میں ایک بارکوڈ ہوتا ہے جسے دل و دماغ کی ہر مشین ٹھیک سے نہیں پڑھ سکتی۔
15۔ اپنی کمزوریاں دوسروں پر عیاں نہ ہونے دو۔ لوگ تمہاری مشکلات کو سمجھنے میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتے جتنی ان سے فائدہ اٹھانے میں رکھتے ہیں۔ کمزور انسان ایک جلتے ہوئے گھر کی طرح ہوتا ہے جسے ہر کوئی لوٹ کر بھاگنا چاہتا ہے۔
اوپر بیان کردہ جملے صاحب طرز ادیب محمد اقبال دیوان کی کتاب" کہروڑ پکاکی نیلماں" سے منتخب کیے گئے۔
اور اب طاہرہ اقبال کے ناول "نیلی بار" میں قیام پاکستان کے دنوں میں گوٹھ میں ہوئی ایک شادی کی منظر کشی۔
دولہا کے حلیے اور لباس کے اظہار کا خوبصورت انداز ملاحظہ کریں۔۔
"ناچنے گانے والوں کے درمیان میں دولہا کھڑا تھا۔ چاندی کے چھلوں اور مندریوں سے بھری موٹی موٹی سیاہ گرہوں والی انگلیاں سخت چقماق کی ہتھیلیاں سیاہی مائل مہندی سے کلیجی رنگ میں رنگی وحشی خوشبو چھوڑتی تھیں۔ دونوں کلائیوں میں لمبے لٹکتے لال ہرے گلابی پھندنوں والے گانے کی بے شمار لڑیاں، جھلمل سنہری روپہلی سگریٹ کی پنی اور شوخ رنگ سوت کے پھولوں سے بنالمبا سنہرا سہرا، کندھوں پر پڑی خوشابی لنگی، سرسوں کے تیل سے چہچہاتے سیاہ گھنے پٹے، کندھوں تک چھٹے ہوئے، لال حاشیے والے ہرے لاچے کے لٹکتے ہوئے لمبے ڈب، لیڈی ہملٹن کے پیلے کرتے پر جھنجھناتے چاندی کی گھنگریوں والے بٹن، لمبی نوک والے روپہلے کھسے، کاٹتی ایڑی کے پیچھے رکھے روٹی کے بنے، ایک کان میں مندری، آنکھوں میں بھر بھر کلائیاں مرے کی، ہونٹوں پر چڑھی رنگیلے دندا اسے کی سرخی، کانوں میں چنبیلی کا خوشبودار تیل، پلکوں، بھنوؤں آنکھوں کے حلقوں، ناک کی نوک، کانوں کی لوؤں اور تیل سے چپڑے بالوں پر ریتلی دھول کی باریک تہ چڑھی تھی"۔
دلہن کے خوبصورت پیراہن کو ان الفاظ میں بیان کیا۔
"لال کنی اور ہری ڈبی والے لاچے پر سرخ لیڈی ہملٹن کا لمبا کرتا اور چھوٹی نوک والا خوشابی کھسہ دلہن کو پہنایا گیا۔ مہندی رنگ رچ رچ تلوؤں اور ہتھیلیوں کو نسواری بنا گیا تھا۔ پیروں کی درمیانی انگلیوں اور انگوٹھوں میں گھنگریوں والے چھلے، چھن چھن چھنکتے چاندی کے پازیب، کلیجی مائل رنگت والی مہندی رچی اُنگلیوں میں پیچھے دو دو سادہ اور آگے ایک ایک گھنگریوں والا چاندی کا چھلا چڑھایا۔ گلے میں لال ڈورے میں پرویا سونے کا انعام، ماتھے پر گول گھڑت کا ٹیکا، بھرے بھرے سینے پر پھیلا چندر ہار، جس میں چاندی کے گول روپے پروئے تھے۔ ستاروں جڑی لال ساٹن کی تیکھی بنیان پر کھلا ڈھلکتا لال چولا لمبی لمبی ڈب والا ہرا لال لا چا۔
سانولی چکنی کلائیوں پر چاندی کی چار چار چوڑیاں، ایک ایک انچ چوڑی چتر کاری والی پتر یاں، گول گھڑت والی آگے ایک ایک گھنگریوں والی چوڑی جن پر تین تین مچھلیوں کے کئی کئی گچھے جڑے تھے۔ بھٹے میں جڑے دانوں جیسے دانت، دندا سے سے رنگے لال ہونٹ، بھر بھر سلائیاں سُرمے کی چیرویں آنکھوں میں بھری ہو ئیں۔ سفید ململ کے دوپٹے کے آستر پر لال شفون کا مہین دو پٹا، جیسے دودھ کی نہر میں لال شربت گھلا ہو۔ بار کی دلہن کی مخصوص عروسی اوڑھنی " جوڑا گھوڑا "عورتوں نے مل کر گیت اُٹھایا۔
اے جوڑا گھوڑا میرے رانجھن آندا
وچ لگائے موتی
اے جوڑا گھوڑا میرے سانول آندا
وچ ٹکائے روپے
اے جوڑا گھوڑا میرے ڈھولن آندا
وچ ٹکائے سونے
تیکھی گھوڑی والی ناک میں لال ہر اموتی پروئی نتھ، دوسرے نتھنے میں بیری کے بور کی گھڑت والا لونگ اور ناک کی درمیانی بڈی میں گھنگریوں والا سونے کا بلاک جو ہر سانس کے ساتھ کھن کھن دھڑک جاتا تھا۔
دلہن کا رُوپ نکھرا تو مہاجرنیں بھی ٹیڑھے گھونگھٹ کے اندر ہکا بکا رہ گئیں، جیسے بجھے دیے میں واٹ جل اٹھی ہو، جیسے جنگلی کنڈیاری لال یا قوتوں سے بھر گئی ہو، جیسے سونا رنگ پھولوں سے جڑی توری کی بیل جھنجھنا گئی ہو"۔
اور آخر میں افتخار عارف
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے