Saturday, 04 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mumtaz Malik
  4. Masoom Be Ghar Janwar

Masoom Be Ghar Janwar

معصوم بےگھر جانور

ویسے ہی تو دنیا کے بہت سارے کاموں میں پاکستان کو بدنامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ اس کا سبب اس ملک کے لوگوں کی اپنی بےحسی، نالائقی اور غیر ذمہ داری ہوتی ہے۔ خدا کا خوف منہ زبانی تو ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے جب یہاں انسانوں کے ساتھ ساتھ انہی انسانوں کے ہاتھوں (جو اپنی مظلومیت کا رونا روتے نہیں تھکتے) معصوم جانور گلیوں محلوں، میں بے انتہا ظلم کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ جانور جو بات نہیں کر سکتے، اپنی تکلیف بیان نہیں کر سکتے، وہ آپ کی ہمدردی کے کتنے مستحق ہوتے ہیں۔

ہماری گلی کے کتے کو ایک ماہ سے زیادہ ہو چکا ہے، شرارت اور مذاق کے طور پر اس کی ٹانگ توڑی جا چکی ہے۔ میں ایک مہینے سے، پہلے ہاسپٹل کے پتے ڈھونڈتی رہی، پھر گوگل سے سرچ کیا، پہلے تو معلوم ہوا کہ یہاں پر اکا دکا ہاسپٹلز بھی ہیں تو بہت مہنگے مہنگے لینڈ لارڈز کے لیئے ہاسپٹلز ہیں کہ وہ اپنے جانوروں کے علاج کروا سکیں وہ 24 گھنٹے کھلے رہیں گے۔ لیکن یہاں پر جیسے عام انسان جانوروں سی زندگی گزار رہا ہے۔

ویسے ایک جانور جانے وہ کس طرح اس ملک میں زندہ ہے۔ جس کا جی چاہتا ہے اس کے گلے میں رسی ڈال لے۔ اس کی ٹانگ توڑ دے۔ اسے گولی مار دے۔ اس کے علاج کا یہاں کوئی بندوبست نہ ہونا ایک بڑا سوال ہے کہ ہم کیسے مسلمان لوگ ہیں؟ جنہیں جانوروں سے ہمدردی کرنا نہیں آتا۔ ان پر رحم کرنا نہیں آتا۔ لیکن اپنے لیئے وہ سب سے بڑے رحم کے طلبگار ہوتے ہیں۔ خدا ان پر کیسے رحم کرے گا، جو دوسروں پہ رحم نہیں کرتا۔

ہمارا میڈیا ہمیں کبھی کسی ڈرامے میں یہ نہیں سکھائے گا، کسی پروگرام میں، کسی ٹاک شو میں یہ نہیں سنیں گے کہ صرف پالتو جانور ہی نہیں باہر گھومتا پھرتا جانور بھی ہمدردی اور توجہ کا مستحق ہے، اسے کھلایا ہوا رزق بھی آپ کے لیے ثواپ کا باعث بنتا ہے، اگر وہ بیمار ہے تو اس کا علاج کرنا بھی آپ کے لیئے باعث ثواب ہے۔ لیکن یہاں اس کتے کی ٹانگ کے علاج کے لیے معلومات کیں تو پتہ چلا جی کوئی 50 ہزار اور کوئی 60 ہزار روپے کا طلبگار ہے۔

میں یہ سن کر حیران رہ گئی کہ آپ نے معصوم جانوروں کے علاج کو بھی کتنا بڑا کاروبار بنا لیا ہے۔ کاروبار کرنے میں ہماری قوم کا کوئی جواب نہیں۔ سچ پوچھیں تو اگر چھ کروڑ لوگ جس ملک میں بیٹھ کر صرف ہاتھ آگے کرنے کی اور منہ بسورنے کی ایکٹنگ کرکے شام کو دودھ ملائیاں کھا کر عیش کر سکتے ہیں، وہاں پر یہ معصوم بلی کتے گلیوں میں گھومنے والے اگر زخمی ہو جائیں تو انہیں اٹھانے ریسکیو کرنے کے لیئے کہیں گاڑی نہیں، کہیں ڈاکٹر نہیں اور کہیں آپ سے اتنے پیسے طلب کیئے جائیں گے کہ آپ خاموشی سے ایک طرف ہو جاؤ گے۔

پھر بھی ہم مسلمان ہیں؟ کیا ہمارا میڈیا واہیاتی، عاشقی معشوقی، ٹھرکیات سکھانے کے سوا بھی کوئی اخلاقی تربیت کا کردار ادا کر سکتا ہے؟

کیا ہمارے ملا اور علماء کو یہ بات یاد ہے کہ چار شادیوں، داڑھی اور ٹخنے سے اوپر شلوار، سیاسی دھڑے بندیوں اور کرسی کی بلیک میلنگز کے علاوہ بھی لیکچرز دینے کے لیئے بہت سے اخلاقی تربیتی موضوعات انکی توجہ کے طالب ہیں اور اسلام پندرھویں صدی میں بھی انکے پاس جانوروں کے اوپر رحم کرنے، انہیں کھانا کھانے، انکا علاج کروانے کا ذمہ دارںمبناتا ہے۔ گھر میں طوطا، مینا، چڑیا پالنے کے سوا بھی جانور ہوتے ہیں ان کو پالنا یا خیال رکھنا بھی اللہ کو محبوب ہے کیونکہ یہ بھی اللہ کی مخلوق ہے اور انکی دعائیں اور بدعائیں بھی ہماری زندگی پر اثرات مرتب کرتی ہیں۔ یہ سب انہیں اور کون سکھائے گا؟

اور اگر ہم ایسی انسانیت اور ہمدردی دکھانے کے قابل نہیں ہیں تو بہتر ہے اس کے لیئے بھی ہم بین الاقوامی این جی اوز یا مشنریز کا سہارا لیں جو بہت بہترین انداز میں بلا معاوضہ ان جانوروں کی دیکھ بھال اور شیلٹر کا کام سر انجام دے سکتے ہیں اور کئی ممالک میں کر بھی رہے ہیں۔

Check Also

Tajweed Aur Moseeqi

By Zubair Hafeez