Insan Ka Katna Sanp Ke Dasne Ke Mutradif Hai
انسان کا کاٹنا سانپ کے ڈسنے کے مترادف ہے
ہسپتال کے ہر کونے میں یہ بات سرگوشیوں سے نکل کر شور کی صورت اختیار کر گئی کہ انسان کو انسان نے کاٹا ہے۔ جانور، کتے بلے کے کاٹنے کی خبریں تو معمول کا حصہ ہوتی ہیں، لیکن انسان کا انسان کو کاٹنا ایک انوکھا، غیرمعمولی اور ناقابل یقین واقعہ تھا۔
مریض کو سرجیکل آئی سی یو کے حساس ماحول میں لایا گیا، جہاں اس کی ذمہ داری ہمارے سپرد ہوئی۔ ایک ضعیف العمر درویش صفت شخص، مشینوں کے جال میں الجھا ہوا، بستر پر نیم جان پڑا تھا۔ اس کا بایاں بازو اس قدر زخمی جیسے کسی نے کپاس کو مسل ڈالا ہو۔ بازو پر گہرے دانتوں کے نشان زخم کو پچیدہ کیے، اس واقعے کی گواہی دے رہے تھے۔
ہسپتال میں جنگل کی آگ کی طرح یہ بات پھیل چکی اور مریض کے گھر والے مختلف باتیں گول مول انداز میں بیان کرتے۔ کہانیاں سناتے، پہیلیاں بجھواتے۔ زخم کی حالت اس قدر سنگین تھی کہ درد کی شدت سے مریض تڑپ رہا تھا۔ سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔
تشویشناک صورتحال کے پیش نظر، زخم کی فوری صفائی کی گئی اور اسے سرجیکل آئی سی یو میں رکھا گیا تاکہ مناسب فیصلے لیے جا سکیں۔ ہر پہلو کا جائزہ لیا گیا، خون، پیپ اور دیگر نمونے لیبارٹری تحقیقات کے واسطے بھیجوا دیے گئے۔ جدید دوائیوں کا استعمال عمل میں لایا گیا اور جب مریض کی حالت کچھ سنبھلنے لگی تو ہم نے سکون کا سانس لیا۔
تاہم، اس سانحے کی اصل حقیقت تک پہنچنا ضروری تھا۔ علاج کے واسطے یہ جاننا فرض تھا کہ یہ زخم کس طرح اور کیوں ہوا۔ تفتیش کی گئی اور مزید پچیدگیوں کے متعلق آگاہ کیا گیا۔ سخت لہجہ اختیار کرنے پر چھپی ہوئی حقیقت بالآخر آشکار ہوئی۔
موصوف عربی زبان کے ماہر، تصوف کے دلدادہ اور مال و دولت کی فراوانی کے باوجود عاجزی و انکساری کا پیکر تھے۔ ہمیشہ ہشاش بشاش رہتے، خود بھی خوش رہتے اور اپنے حلقے کے لوگوں کے دکھ درد بھی بانٹتے۔ علاقے میں ان کا مقام استاد سے کہیں بڑھ کر تھا، وہ پیر و مرشد کے طور پر گردانے جاتے۔ لوگ اپنی پریشانیوں کا علاج اور دلوں کا سکون تلاش کرنے ان کے پاس آتے اور وہ خیر کی دعائیں دے کر انہیں واپس بھیجتے۔
لیکن قسمت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے؟ ایک روز ایک پرسان حال عورت کو ان کے سامنے پیش کیا گیا جس کا ذہنی توازن درست نہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے کتے کے کاٹنے کی شکایت کی اور دعا کی درخواست کی۔ مصوف اُس وقت ذکر و اذکار میں مشغول تھے کہ اچانک وہ اپنے اوپر قابو نہ رکھتے ہوئے بجلی کی سی تیزی سے پیر صاحب پر جھپٹ پڑی۔ حملہ اس قدر غیر متوقع تھا کہ مریدین بھی خوف کے مارے کچھ دیر کے لیے ساکت رہ گئے، مگر جلد ہی سے اسے قابو کرکے پیر صاحب سے دور کیا۔
سانس بحال ہونے پر پیر صاحب شکرخدا بجا لائے، جان بچی سو لاکھوں پائے۔ بائیں بازو پر ایک چھوٹا سا زخم ضرور ہوا، مگر وہ اسے معمولی سمجھ کر نظرانداز کر گئے۔ دوسرے اور تیسرے دن زخم نے بگڑنا شروع کیا، مگر وہ پائوڈین اور پٹی کے ذریعے خود علاج کرتے رہے۔ اس وقت انہیں یہ گمان تک نہ تھا کہ یہ زخم کس قدر سنگین صورت اختیار کر سکتا ہے۔
جب درد برداشت سے باہر ہوگیا۔ زخم مزید خراب ہونے لگا، تو آخرکار انہیں ہسپتال کا رخ کرنا پڑا۔ مگر اس وقت تک پانی سر سے گزر چکا تھا۔ درد کی شدت اور زخم کی حالت دیکھ کر انہیں اس لمحے اپنی غفلت کا شدت سے احساس ہوا، مگر اب کیا ہو سکتا تھا؟"پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت"۔
ہم سے جو کچھ بن پایا، وہ کر دیکھا۔ ہر ممکن کوشش کی، تحقیق مکمل کی، مختلف پہلؤں پر نظر دوڑائی اور ہر لمحہ مریض کی نگہداشت کی۔ لیکن اس کے باوجود حالات سدھرنے کے آثار نہیں دکھائی دے رہے تھے۔ اس پیچیدہ صورتحال کے پیش نظر، ایک ملٹی ڈسپلنری ٹیم (MDT) کا اجلاس بلایا گیا، جہاں مختلف شعبوں کے ماہرین اور سینئر ڈاکٹروں نے اپنے قیمتی مشورے دیے۔
اس اجلاس میں مریض کا ہاتھ بچانے کے واسطے خوب ایڑھیاں مارئیں گئیں۔ روزانہ کی بنیاد پر مریض کی بے ہوشی کی حالت میں زخم کی صفائی کی جاتی ہے اور جدید دوائیوں کا استعمال ہو رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ جدوجہد جاری ہے، مگر نتیجہ من جانب اللہ ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ اگر وقت پر احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں، تو کئی ناقابل علاج مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔ انسان کا کاٹنا، بظاہر ایک معمولی واقعہ لگتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ نہایت خطرناک اور مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔
جیسے سانپ اپنے زہریلے دانتوں سے ڈستا ہے، ویسے ہی انسان کے کاٹنے سے منہ کے جراثیم زخم کے اندر منتقل ہو جاتے ہیں۔ انسانی منہ میں موجود بیکٹیریا زہر کی طرح خون میں سرایت کرتے ہیں اور خون کو حیرت انگیز حد تک متاثر کرتے ہیں۔ یہ خطرناک بیکٹیریا جسم کے مختلف اعضا کو نقصان پہنچاتے ہیں، یہاں تک کہ موت کا سبب بن سکتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں اکثر متاثرہ عضو کو کاٹنے (ایمپوٹیشن) جیسا سخت فیصلہ کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اگر کوئی ایسی صورتحال پیش آئے، تو فوراً قریبی ہسپتال کا رخ کریں اور مستند ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ یاد رکھیں، انسان کا کاٹنا سانپ کے ڈسنے کے مترادف ہے اور فوری علاج کے بغیر یہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔