بچہ اور چاچے مامے
جناب عمران خان کے حکومت سنبھالنے کا مجھے اور میرے قارئین کو یہ بڑا فائدہ ہوگیا کہ ان کے ہنی مون پیریڈ کو بدمزہ نہ کرنے کی خاطر سیاسی موضوعات سے کنارہ کشی اختیار کرکے بچوں کی تربیت کے حوالے سے ایک پوری سیریز چلانے کا موقع میسر آگیا۔ قارئین کے زبردست رسپانس سے اس موضوع میں ان کی بے پناہ دلچسپی کا اندازہ ہوتا رہا جس سے مجھے لکھنے میں بھی لطف آیا۔ اور یہ لطف اس قدر بھرپور رہا کہ اب تو جی کرنے لگا ہے کہ اگلے چند ماہ میں ایک بار پھر کوئی نیا وزیر اعظم آئے اور ایک بار پھر کسی ہنی مون پیریڈ کی رعایت سے سیاست کے بجائے کسی "مفید" موضوع پر کھل کر مفصل لکھنے کا موقع میسر آجائے۔ تربیت اولاد والی سیریز میں آج آخری کالم ہے اور اس کالم میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے میں اپنی ہی دو بڑی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں تاکہ قارئین اس کا بھی فائدہ اٹھا کر اپنے بچوں کے معاملے میں انہیں دہرانے سے بچ سکیں۔ یہاں ایک بنیادی بات یہ سمجھنی ضروری ہے کہ اس پوری سیریز میں آپ کے سامنے جو کچھ پیش کیا ہے وہ کوئی کتابی یا نصابی باتیں نہ تھیں بلکہ ذاتی تجربات تھے۔ جب بات تجربات کی ہو تو پھر امکانات دو ہوتے ہیں۔ یا تو تجربہ فیل ہوجاتا ہے یا کامیاب۔ اگر مطلوبہ مقاصد و نتائج حاصل ہوجائیں تو تجربہ کامیاب شمار ہوتا اور اگر مطلوبہ مقاصد کے بجائے نقصانات ظاہر ہوجائیں تو ظاہر ہے تجربہ ناکام شمار ہوتا ہے۔ میں نے آپ کو وہی کرنے کا کہا جو میں نے ایک نہیں اپنے تین بچوں کی تربیت کے دوران کیا اور بہترین نتائج حاصل کئے۔ آج میں آپ کے سامنے اپنی جو غلطیاں رکھنے جا رہا ہوں ان اقدامات کے غلط ہونے کا بھی مجھے اسی طرح پتہ چلا کہ ان کے نتائج برے نکلے۔ اگر یہ درست اقدامات ہوتے تو ان کے نتائج مفید نکلتے۔ اپنے بچے کی تعلیم کے معاملے میں ہم مذہبی فکر کے لوگوں میں یہ خواہش بڑی شدت کے ساتھ پائی جاتی ہے کہ بچہ سب سے پہلے قرآن مجید حفظ کر جائے۔ ایسا ہم فضائل کی وجہ سے بھی چاہتے ہیں اور ساتھ ہی اس تجربے کی وجہ سے بھی کہ حافظ بچے کا دماغ بہت تیز طرار ہوجاتا ہے اور تعلیم کے دیگر مراحل میں بھی وہ نسبتاً زیادہ کامیاب ثابت ہوتا ہے۔ میری بھی یہی خواہش تھی۔ چنانچہ مونٹیسوری لیول کے بعد میں نے پہلے دونوں بچوں کو حافظ قرآن بنانے کی کوششیں شروع کردیں۔ اس کوشش میں خدا نخواستہ کوئی برائی نہ تھی، یہ بہت ہی نیک اور سعید کوشش تھی۔ غلطی بس یہ ہوئی کہ بچوں کا ذاتی شوق نہ تھا جس کی وجہ سے کار کردگی بہت کمزور تھی اور میں پھر بھی انہیں حافظ قرآن بنانے پر تلا رہا۔ یہ بہت ہی بڑی غلطی تھی، مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا اور بچوں کا حفظ روک دینا چاہئے تھا۔ میں نے کچھ منت سماجت تو کچھ آنکھیں وانکھیں دکھا کران سے حفظ تو کروا لیا لیکن بہت جلد یہ اپنا پورا قرآن مجید بھول بھال گئے۔ سکول کالج لیول پر چونکہ حافظ بچے کو کچھ ایکسٹرا نمبرز بھی ملتے ہیں تو الحمدللہ یہ نمبر میرے بچوں نے کبھی کلیم نہیں کئے۔ انہوں نے کبھی بھی اپنے حافظ ہونے کا دعویٰ کرکے وہ نمبر نہیں مانگے اور اپنا سٹیٹس ہمیشہ غیر حافظ بچے کا ہی رکھا لیکن یہ ہے تو صدمے کا مقام کہ حفظ کرکے قرآن مجید بھول گئے اور اس غلطی کا ذمہ دار میں انہیں نہیں بلکہ خود کو سمجھتا ہوں۔ میری والدین سے یہ گزارش ہوگی کہ اگر آپ اپنے بچے کو حافظ قرآن بنانا چاہتے ہیں تو یہ بڑے سعادت کی بات ہے، ضرور حفظ کروائیں۔ لیکن اگر بچے کی کار کردگی ٹھیک نہیں جا رہی تو پھر اس کا وقت اور توانائی ضائع مت کیجئے۔ میری دوسری غلطی کا میرا بڑا بیٹا شکار ہوا۔ ہوا کچھ یوں کہ یہ بچہ آٹھ دس ماہ کی عمر سے ہی میرے والد مرحوم سے بہت زیادہ اٹیچ ہوگیا۔ شروعات اس کی یوں ہوئی کہ روز فجر کی نماز کے فوراً بعد حمایت اللہ والد صاحب کو منزل سنایا کرتے تھے۔ صلاح الدین اس دوران میرے بھائی کی گود میں بیٹھ کر اس عمل کا باقاعدہ حصہ ہوتا۔ گھر مسجد سے متصل تھا، والد صاحب مسجد جاتے تو یہ بھی ساتھ جانے کی ضد کرتا۔ جب یہ دو برس کا ہوا تو صورتحال یہ ہوگئی کہ وہ جمعے کے روز مسجد کے منبر پر بیٹھ کر بیان فرما رہے ہوتے اور یہ جا کر ان کی گود میں بیٹھ جاتا۔ بڑی مشکل سے انہوں نے اسے اس بات پر قائل کیا کہ اسے گود کے بجائے پہلی صف میں بیٹھنا چاہئے۔ چنانچہ یہ عجیب و غریب منظر اس مسجد میں دیکھا جانے لگا کہ جمعے کے بیان اور خطبے کےدوران پہلی صف میں عین منبر کے سامنے دو ڈھائی برس کا بچہ بھی ساٹھ ستر سال کے بزرگوں کے بیچ پوری پابندی کے ساتھ بیٹھا ہوتا ہے۔ بات صرف یہیں تک نہ رہی بلکہ دن کے عام اوقات میں اگر کبھی اچانک نوٹ کیا گیا کہ صلاح الدین گھر پر نہیں ہے تو دوڑ کر اسے مسجد سے لانا پڑتا جہاں یہ خالی ہال میں منبر پر بیٹھا کسی کھلونے سے کھیل رہا ہوتا، یعنی اس کے کھیلنے کی فیورٹ جگہ مسجد کا منبر تھا۔ اور جب تین برس کی عمر ہوئی تو اس بچے نے باقاعدہ ضد شروع کردی کہ "مجھے بابا کی طرح بننا ہے" ہم نے سکول میں داخل کرایا تو اس نے احتجاج شروع کردیا کہ مجھے تو مدرسے میں پڑھنا ہے۔ مدرسے سے یہ یوں واقف تھا کہ میرے بھائی پڑھنے وہیں جاتے تھے۔ چنانچہ بڑی مشکل سے سمجھایا کہ پہلے سکول ضروریہے پھر مدرسے کا مرحلہ بھی آجائے گا۔ جب مدرسے کی تعلیم کا مرحلہ آیا تو آغاز اسلام آباد میں ہی کیا گیا لیکن دو سال بعد بارہ برس کی عمر میں اسے بہتر تعلیم کے لئے کراچی بھیج دیا کیونکہ وہاں کے مدارس کا معیار نسبتاً بہتر ہے۔ چونکہ کراچی میں میری والدہ محترمہ اور آٹھ بھائی ہی نہیں بلکہ بچے کا ننھیال بھی وہیں موجود تھا، سو خیال یہی تھا کہ سب کچھ بہت اچھا ہوجائے گا۔ پہلا سال اچھی طرح گزر گیا، بچے کی تعلیم بھی ٹھیک ٹھاک رہی اور اس نے کسی پریشانی کا بھی اظہار نہیں کیا۔ دوسرے سال سے اس نے بعض شکایات شروع کردیں جن کا تعلق مدرسے سے نہیں بلکہ فیملی سے تھا۔ یہ شکایات بڑھتی چلی گئیں اور میں اس کا یہی مطلب لے کر نظر انداز کرتا گیا کہ یہ کراچی سے نکلنے کے بہانے ہیں۔ میں نے مسلسل یہ شکایات تین برس نظر انداز کئے رکھیں۔ جن میں وہ تین انتہائی قریبی عزیزوں کے ناروا رویے کی شکایت کرتا رہا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میرے انتہائی قریبی خونی رشتے میرے بچے کو اس طرح کے نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنائیں گے۔ کوئی جسمانی تشدد نہیں کیا گیا بلکہ زہریلے جملوں کی مدد سے اس کی نفسیات تباہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اور یہ سزا اسے اس جرم کی دی گئی کہ وہ پڑھائی میں بہت اچھا تھا۔ اس نفسیاتی تشدد کا نتیجہ یہ ہے کہ میرا یہ بچہ مجھ سے بے پناہ قربت رکھنے کے باوجود اس طرح کا تال میل بٹھانے میں کامیاب نہیں ہو پاتا جس طرح باقی دو بچے ملا لیتے ہیں۔ لیکن میں اس معاملے کو اس سطح پر نہیں دیکھتا کہ ان تین عزیزوں میں کوئی مسئلہ تھا، عین ممکن ہے کہ ان کا بچہ میرے پاس ہوتا تو شاید میں بھی ایسا ہی بے رحم ثابت ہوتا لہٰذا میری سوچ یہ ہے کہ بنیادی غلطی میری تھی، اپنے اس بچے کی شکایات کو نظر انداز کرنا اور اسے تعلیم کے لئے کراچی ہی میں رکھنا میری بدترین غلطی تھی۔ میری ہر ماں باپ سے یہ دست بستہ التجا ہے کہ اپنے دس سے اٹھارہ سال کے بچے کو اسی شہر میں پڑھائیے جہاں آپ خود موجود ہوں۔ بچے کے کسی چاچے مامے یا گارڈین پر کسی صورت بھروسہ مت کیجئے۔