زاہد اسلم
رحیم یار خان کا زاہد اسلم 1991 ملتان یونیورسٹی میں انگلش ڈیپارٹمنٹ میں میرا کلاس فیلو تھا۔ وہیں سے ہماری ایک طویل دوستی کا آغاز ہوا۔ ہنس مکھ۔ کھلنڈرا۔ کھلا ڈالا ایک ذہین نوجوان۔ ہر وقت دوستوں کی مدد کے لیے تیار۔ اکثر پیپر کی تیاری زاہد ہی دوستوں کو کراتا تھا۔
زاہد اسلم یونیورسٹی سے فارغ ہو کر فوج میں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں چلا گیا۔ کیپٹن کے عہدے تک پہنچا۔
1994/95 ملتان میں کیپٹن زاہد اور میں ایم ڈی اے چوک کے قریب ایک کالونی میں کرائے کے گھر میں بڑا عرصہ اکھٹے رہے۔ دن رات کا ساتھ۔ وہ اکثر بیڈ ٹی مجھے میرے کمرے میں بنا کر دے جاتا۔ پھر کچھ دیر بعد بہترین قسم کا آملیٹ ساتھ ناشتہ بنا کر پیش کرتا۔
میں اسے مذاقا کہتا جتنا تم میرا خیال کرتے ہو کیپٹن تم نے مجھے میری ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔
کچھ عرصہ بعد اس نے فوج سے استعفیٰ دے دیا کہ اس کا دل نہیں لگتا تھا۔ قابل شروع سے تھا۔ مقابلے کے امتحان کی تیاری کی اور پھر امتحان بھی پاس کیا لیکن افسر بننے کو دل نہ کیا تو رحیم یار خان کالج میں پبلک سروس کا امتحان دے کر انگریزی کا لیکچر لگ گیا۔
پھر لمبا عرصہ کیپٹن سے رابطہ نہ رہا۔ اس دوران ایک دفعہ وہ اسلام آباد آیا تو ملاقات ہوئی، کھانا اکھٹے کھایا۔ لمبی گپ شپ رہی۔ کیپٹن نے لمبی داڑھی رکھی ہوئی تھی۔
اب چند دن پہلے اچانک پتہ چلا اس کے نوجوان بیٹے کا اسلام آباد ایکسڈنٹ ہوا ہے۔ سر پر شدید چوٹ لگی ہے۔ آئی سی یو داخل ہے۔
میں فورا پمز ہسپتال گیا۔ کیپٹن ملا۔ دونوں گلے لگے اور بڑی دیر تک ایک دوسرے کو لگے لگائے رکھا۔ وہی ہنستا مسکراتا ہمارا کیپٹن۔ کہیں سے نہ لگا ہم مدت بعد مل رہے ہیں۔
نوجوان بیٹا ICU میں زندگی موت کی جنگ لڑ رہا تھا لیکن کیپٹن حوصلے ساتھ کھڑا تھا۔ آئی سی یو میں اس کے زخمی بیٹے ساتھ کھڑے کیپٹن کو دیکھ کر یاد آیا برسوں پہلے میں اور شعیب بٹھل ملتان سے رحیم یار خان اسی زاہد اسلم کی شادی پر گئے تھے۔ بہاولپور رات کو نعیم بھائی کے پاس ٹھہرے اور اگلے دن رحیم یار خان گئے۔ واپسی پر رات گئے ٹرین میں جگہ نہ ہونے کے سبب سارا راستہ کھڑے ہو کر بہاولپور آئے تھے۔ یادوں کا ایک ریلا آکر گزر گیا۔
میری آنکھیں اس نوجوان بچے پر تھیں جو یہاں نسٹ یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھ رہا تھا۔ میں رات کو افسردہ گھر واپس آیا۔ اگلی صبح کیپٹن کے زخمی بیٹے دائود کے نام کا بکرے کا صدقہ دلوایا۔ کیپٹن کا میسج آیا کہ دائود کو اچانک کچھ فرق پڑا ہے۔ مجھے حوصلہ ہوا کہ شاید بکرے کے صدقے کا کچھ اثر ہورہا ہے۔ پھر کیپٹن کو فون کیا میں آرہا ہوں کہیں کیفے پر چل کر کافی پینے چلتے ہیں۔ مجھے تھا وہ مسلسل اسٹریس میں ہے۔ امید اور ناامیدی کے درمیان لٹکا ہوا ہے۔ کچھ ہسپتال کے ماحول سے اسے باہر لے جائوں۔ اسے بریک دوں۔ لیکن ہر دفعہ کیپٹن یہی کہتا اچھا چلتے ہیں۔
کل پھر بات ہوئی تو میں وہی حوصلہ دے رہا تھا۔ کچھ دیر بعد کیپٹن کا میسج آیا کہ ڈاکٹر کہتے ہیں اس طرح کی انجری میں 80 فیصد بچنے کے چانسز نہیں ہوتے۔ اگر بچ بھی جائیں تو عمر بھر معذروی، یا میموری لاس دیگر ایشو ہو جاتے ہیں۔ صرف پانچ فیصد معجزانہ طور پر ریکور کرتے ہیں۔ اب دعا کرو کوئی معجزہ ہو اور دائود ان پانچ فیصد میں ہو۔ کیپٹن نے مجھے لکھا تم مجھے بتائو یہ معجزہ کیسے ہوسکتا ہے؟
یہ میسج پڑھ کر مجھے پورا بدن سن ہوتا محسوس ہوا۔ ایک باپ کا یہ میسج مجھے اندر تک کاٹتا چلا گیا جو کئی دنوں سے پورا سو تک نہیں پایا تھا۔
آج جاگا تو کیپٹن زاہد کا واٹس ایپ میسج تھا کہ دائود نہیں رہا۔ رات آٹھ بجےرحیم یار خان میں جنازہ ہے۔ اسے لے کر جارہا ہوں۔
ایک خوبصورت دل اور دماغ کے مالک کیپٹن کو عمر بھر اب اپنے کندھوں پر جوان بیٹے کا جنازہ اٹھانا تھا۔