ٹرو گرٹ
انگریزی کا یہ لفظ Grit اپنے اندر بہت گہرے معنی لیے ہوئے ہے۔ اگر اس لفظ کا مزہ لینا ہے تو آپ اس نام کی بنی فلم دیکھ سکتے ہیں جو پہلے جان وائن کے لیڈ رول میں 1969 میں بنی یا پھر آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار جیف بریجز کی ری میک 2010 فلم۔ اس فلم کو دس آسکرز ایوارڈز کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔
خیر ان فلموں سے مجھے اندازہ ہوا کہ اس لفظ Grit کے معیار پر پورا اترنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اس کے لیے بہت بڑی جرات اور کردار کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ تمہید اس لیے باندھنی پڑ گئی کہ یہاں مشہور مزاح کالم نگار اور ٹی وی پروگرام کے ہوسٹ گل نوخیز اختر کا ذکر کر سکوں۔
گل نوخیز اختر کے مزاحیہ کالم بڑے عرصے سے پڑھتا آیا ہوں۔ بعد میں یہ بھی پتہ چلا کہ وہ ملتان سے ہیں لہذا محبت کچھ مزید بڑھ گئی۔ پھر انہوں نے ٹیلن نیوز چینل پر اپنا مزاحیہ پروگرام شروع کیا تو اندازہ ہوا جتنا وہ اچھا مزاح لکھتے ہیں اتنا بول بھی سکتے ہیں۔ عموما اچھا لکھنے والے اچھا بول نہیں سکتے۔ بہت کم ہوں گے جو اچھا لکھیں اور اچھا بولیں۔ لیکن نوخیز اختر بھی اس کلاس میں سے ہیں ہےجو اچھا مزاح لکھ بھی سکتے ہیں اور ٹی وی پر آپ کو قہقے لگانے پر مجبور بھی کرسکتے ہیں۔
میری ٹیلن چینل لاہور ان کے دفتر ایک ملاقات ہوئی تھی شاید جون یا جولائی میں۔ انہوں نے بڑی عزت دی۔ مجھے بھی یوں لگا جیسے برسوں کی شناسائی ہے۔ بڑے کھلے ڈلے انسان جو ایک لحمے میں اپنی مسکراہٹ سے آپ کو کمفرٹ ایبل کر دیں۔
خیر مجھے علم نہ تھا وہ میری وجہ سے بڑے امتحان میں پڑنے والے ہیں۔ جب میرا ٹیلن سے ایشو ہوا تو سابقہ انتظامیہ کے کسی ایک آدھ بڑے صاحب نے سب کی ڈیوٹی لگائی کہ رئوف کلاسرا کو سوشل میڈیا پر گندہ کرو۔ اس کے خلاف لکھو۔
اگرچہ میں نے اس چینل کے ایڈوائز صاحب کو پیغام بھیجا تھا کہ ہمت کرو خود اپنے نام سے کچھ لکھو۔ کیوں بے چارے چینل ملازمین کو بلیک میل کررہے ہو کہ میرے خلاف لکھو۔ ایک تنخواہ دار ملازم کب تک انتظامیہ سامنے کھڑا ہوسکتا ہے۔ کچھ دوستوں نے میرے خلاف لکھنا شروع بھی کیا۔ اس وقت نوخیز اختر گل کو بھی کہا گیا کیونکہ ان کے قلم کی کاٹ زیادہ تیز ہے اور اثر رکھتی ہے۔ ان کا نام بھی بڑا ہے۔ مشہور بھی زیادہ ہیں۔ قلم سے دوسروں کو زیر کرنے کا فن بھی جانتے ہیں۔
لیکن نوخیز اختر نے سیدھا انکار کر دیا۔ دبائو ڈالا گیا تو جواب دیا آپ کہتے ہیں تو چینل چھوڑ دوں گا لیکن میں رئوف خلاف کچھ نہیں لکھوں گا۔
یقینا ان کی تنخواہ بھی چھ ہندسوں میں تھی۔ کون لاکھوں کی نوکری کسی ایسے بندے کے لیے چھوڑنے پر تل جائے جس سے آپ کا کوئی پرانا ذاتی تعلق یا گہرے مراسم تک بھی نہ ہوں۔
اور ایسے بندے کے لیے ڈٹ جائو جس کا چینل انتظامیہ ساتھ ایشو چل رہا ہو۔
نوخیز اختر گل نے میرے خلاف دبائو کے باوجود لکھنے سے انکار کیا۔ میرا ان سے کوئی ذاتی یا قریبی تعلق بھی نہ تھا۔ اگر وہ لکھ بھی دیتے تو شاید اتنا زیادہ افسوس نہ ہوتا۔
یہ بات مجھے آج تک نوخیز اختر نے نہیں بتائی بلکہ میری ان سے پہلی ملاقات بعد کبھی رابطہ تک نہ ہوا۔ وہی اکلوتی ملاقات تھی۔
مجھے چند دن پہلے اتفاقا کسی ایسے بندے سے معلوم ہوا جو ان واقعات کا عینی شاہد ہے۔
ان حالات میں جب آپ کی انتظامیہ کا آپ پر شدید دبائو ہو اور آپ کا مالکان سے پرانا تعلق ہو اور وہاں ٹی وی شو بھی کررہے ہوں لیکن آپ پھر بھی انکار کر دیں۔ اپنی نوکری اور کیرئر دائو پر لگا دیں۔ اسے کہتے ہیں ایک خاندانی، باکردار اور روایت سے بھرا انسان۔
یہ ہوتا ہے کردار۔ یہ ہوتی ہے جرات۔
یہ ہے True Grit.
ایسے باکردار اور بہادر انسان کو شکریہ کہنا چھوٹا لگتا ہے۔