Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Rauf Klasra
  3. The World Of Yesterday

The World Of Yesterday

دا ورلڈ آف یسٹرڈے

اس دفعہ بھی ہمیشہ کی طرح صفدر بھائی اور میں نے لندن کے بک اسٹور پر سارا وقت گزارا اور کیا کیا نئی بکس خریدیں۔ ویسے لندن اور امریکہ میں کیا کیا شاندار کتابیں چھپتی ہیں۔ اس دفعہ تو میں بہت کنفیوز ہوا کہ اچھی کتابیں لندن میں چھپ رہی ہیں یا امریکہ میں۔۔ پھر پاکستان پہنچ کر اپنا کتابوں والا بیگ کھولا تو اس خوشگوار نتیجے پر پہنچا کہ دونوں جگہوں پر ہی بہت اعلی کتابیں چھپ رہی ہیں۔

ڈاکٹر ظفر الطاف، نعیم بھائی کے بعد اگر کسی میں books sense دیکھی ہے تو وہ صفدر بھائی ہیں لہذ ان کی کمپنی میں کتابیں ڈھونڈنے اور خریدنے کا اپنا ہی لٹریری مزہ اور خوبصورت ٹائم پاس ہے۔ خیر لندن کے پکاڈلی سرکس پر واقع واٹر اسٹونز بک اسٹور میں اس کتاب پر نظر پڑی۔ میں اس ادیب کو پہلے نہیں جانتا تھا۔ پہلی دفعہ نام پڑھا تو اس کے تعارف پر کچھ زیادہ وقت لگ گیا۔ مجھے اس کتاب میں گم دیکھ کر صفدر بھائی اس کی مزید کتابیں ڈھونڈ کر لائے۔ کافی دیر بعد سر اٹھا کر دیکھا تو وہ اس کی دیگر بکس پکڑے کھڑے مسکرا رہے تھے۔

یہ ممکن ہی نہیں کہ ادب آپ کی شخصیت پر اثر نہ ڈالے اور اگر ادب اثر نہیں ڈال سکا تو سمجھ لیں وقت ہی ضائع کیا۔ ابھی ان غیر معمولی یاداشتوں کے لکھاری کی پہلی لائن ہی پڑھ لیں کہ "میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ دوسروں کو اپنی زندگی کی کہانی سنائوں"۔

اور ایک ہم ہیں ایک آدھ کتاب لکھ لیں تو پھر سنبھالے نہیں جاتے اور اپن ہی بھگوان والی سوچ ہمارے سر پر سوار ہوجاتی ہے۔

کافی دیر تک میں اس جملے کی خوبصورتی میں ڈوبا رہا کہ آپ خود کو کب اس قابل نہیں سمجھتے کہ آپ کی زندگی میں ایسا کیا خاص تھا کہ وہ لکھیں اور لوگ پڑھیں اور جب لکھ لیں تو آپ کی یاداشتوں کو بیسویں صدی کی سب سے بڑی یاداشت کا اعزاز دیا جائے۔

یہ وہ ہیں جو 1881/1942 کے درمیان دنیا زندہ رہے جو دنیا کے دلچسپ یا حیرت انگیز یا خون خرابے والا زمانہ تھا (خیر ہر زمانہ ہی ایسا رہا ہے اور ابھی بھی چل رہا ہے) جنگ عظیم اول، انقلاب روس، جنگ عظیم دوم اس کی دو تین مثالیں ہیں۔ پورا یورپ آگ و خون میں نہایا ہوا تھا تو اس دوران امریکہ میں گریٹ ڈپریشن نے دنیا کو متاثر کیا ہوا تھا۔ یورپ میں زندگی بہت ٹف تھی اور اس ادیب کو کہیں سکون نہ تھا۔ سکون کی تلاش میں وہ بس ساری عمر ایک ملک سے دوسرے ملک تو شہر سے دوسرے شہر پھرتا رہا۔

وہ برلن میں پڑھے، پھرویانا گئے۔ پہلے شاعر تو پھر مترجم کے طور پر مشہور ہوئے پھر بائیوگرافیز لکھنا شروع کیں۔ بہت زیادہ سفر کیا اور ایک مشہور لکھاری کے طور پر ابھرے جن میں ان کی طویل تحریر Letters from unknown woman بہت مشہور ہوئی۔

اس دوران جنگ عظیم اول کا عذاب بھگتا، پھر لندن چلے گئے، دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو برطانیہ کی شہریت لے لی۔ وہاں دل نہ لگا تو نیویارک چلے گئے اور آخر وہاں بھی دل نہ لگا تو برازیل جا کر سیٹل ہوئے۔

جس دن انہوں نے اپنی یہ یاداشتیں The World Of Yesterday اپنی جرمن زبان میں مکمل کرکے پبلشر کو پوسٹ کیں، اگلے دن دونوں میاں بیوی اپنے فلیٹ میں مردہ پائے گئے۔ پتہ چلا دونوں نے اپنی زندگی اکھٹے ختم کر لی۔۔ کہ اب مزید جینے کو کیا رہ گیا ہے اور کیا لکھنے کو بچ گیا ہے۔۔! کافی جی لیا۔۔ کافی لکھ لیا۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam