تنہائی سے گفتگو

یہ کتاب مجھے عاصم کلیار صاحب نے بھیجی ہے اور انہوں نے لکھ کر بھیجا یہ مجھے غیرروایتی کتاب لگے گی اور یقین کریں وہی ہوا۔ میرا ان سے شاید ذاتی تعارف نہیں ہے۔ بڑے عرصے بعد آج عجب ماجرا ہوا کہ کسی نئے لکھاری کی کتاب کو رسما بلکہ غیر سنجیدگی سے اپنے ہاتھوں میں لیا اور پھر نیچے نہ رکھا پایا۔
میں نے تو ویسے ہی کتاب کو ہاتھوں میں لیا تھا کہ چلیں دیکھتے ہیں کہ اس کے اندر کیا ہے اور کچھ نہیں تو بندہ قسم کھانے جوگا تو رہ ہی جاتا ہے کہ قسمے میں نے کتاب پڑھی تھی چاہے نام ہی کیوں نہ پڑھا ہو۔
پہلے کتاب کے اوراق پلٹنے لگا، کچھ دلچسپ سا لگا تو توجہ سے پڑھنے لگا اور پھر لطف اندوز ہونے لگا اور پھر پتہ نہیں چلا کہ میں کتنے صحفات پڑھ گیا۔ بڑے عرصے بعد خوبصورت اور مختلف تحریریں پڑھیں۔ اردو زبان کا مزہ لیا۔ ایک ایک لفظ پر محنت۔ مختلف موضوعات پر کلاسک تحریریں۔
لگتا ہے عاصم کلیار صاحب نے یہ کتاب محض اپنا رانجھا راضی کرنے کے لیے لکھی اور شاید خود ہی چھاپی اس لیے کتاب پر اس کا ایڈریس نہ تھا کہ کہاں سے منگوائی جاسکتی ہے۔
کوئی اپنی تصویر نہیں لگائی نہ اپنا کوئی لمبا چوڑا تعارف کہ چلیں کتاب متاثر کرے یا نہ کرے لیکن تعارف کے بوجھ تلے ہی دب جائے۔ سوچتا ہوں اس کلاسک کتاب کو کوئی اچھا پبلشر ملتا تو اس کا کیا مقام اور نام ہوتا۔
ابھی تو چند ابواب پڑھ پایا ہوں اور پڑھتے ہوئے ان کرداروں کی محبت میں گرفتار ہورہا ہوں۔ خوبصورت انسانی کرداروں کے بارے خوبصورت زبان میں ڈوبی تحریریں جو میں اس وقت رات گئے گھر کے برامدے میں بیٹھا پڑھ رہا ہوں۔
آج رات اسلام آباد میں بھی بڑے دنوں کے بعد بادل گرج رہے ہیں، سامنے دور بھیگے آسمان پر بجلی بار بار چمک رہی ہے۔ اب تو بارش کی بوندیں ٹپکنا شروع ہورہی ہیں اور مجھے برسوں پہلے اپنے بچپن کے گائوں کا وہ برآمدہ یاد آرہا ہے جب چار سو اندھیرے میں بارش کے تیز قطروں کے شور میں بادلوں کی گھن گرج شامل ہوتی تو میرے اندر ایک عجیب سنسنی بھرا سماں اور رومانس پیدا کر دیتی تھی۔