تاج محل سے مریم نواز تک

اعظمی بخاری صاحبہ نے آج پریس کانفرنس میں کہا کہ مریم نواز صاحبہ اپنی جیب سے جو چاہیں قیمتی کپڑے جوتے بیگز خریدیں کسی کو کیا تکلیف ہے۔ وہ کسی کی جیب سے خرچ نہیں کررہیں۔
یہ بات اس وقت ٹھیک ہے جب تک مریم نواز صاحبہ ایک عام انسان ہیں۔ بے شک کسی ارب پتہ بزنس مین کی بیٹی ہیں۔ وہ جو چاہیں کریں۔ لیکن جب آپ کسی عوامی عہدے پر بیٹھ جاتے ہیں اور غریبوں کی بات کرتے ہیں تو پھر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرا پیسہ میری مرضی۔
آپ کروڑں غریب لوگوں کا خود کو نمائندہ سمجھتے ہیں اور ڈیڑھ کروڑ بچہ سکول سے باہر ہے تو پھر ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ ان لوگوں تو کم از کم انہیں لگنا چائیے کہ ان کی لیڈری کا دعویدار بھی ان کا مذاق اپنی امارت سے نہیں اڑاتا اور نہ ہی آپ کے بیگز کپڑے یا گھڑیاں یا برانڈز کو دیکھ کر غریبوں کی بیٹیاں حسرت سے مر جاتی ہیں۔
بھارت کا پہلا وزیراعظم نہرو کا باپ موتی لعل ہندوستان کا سب سے امیر انسان تھا۔ لیکن جب اس نے گاندھی جی کے ساتھ انگریزوں کے خلاف سیاست میں حصہ لیا تو پھر اس نے امیرانہ انداز ترک کیا۔ وہ بھی وہی کھدر اور عام جوتے پہننے لگا تھا جس کا پرچار گاندھی جی کرتے تھے۔ حالانکہ اس سے پہلے موتی لعل جو ہندوستان کے مہنگے ترین وکیل تھے کے بارے مشہور تھا ان کے کپڑے بھی لندن سے ڈرائی کلین ہو کر آتے تھے۔
وجہ یہ نہیں تھی کہ موتی لعل اچانک غریب ہوگیا تھا یا ان اسے کوئی وکیل نہیں کرتا تھا لہذا مجبورا سادہ زندگی کی طرف آنا پڑا۔
ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں شامل ہوا تو اسے ان عام ہندوستانیوں کا اپنی دولت یا رہن سن اور لائف اسٹائل سے مذاق نہیں اڑانا تھا جن کی وہ بات کررہا تھا۔ وہ ان جیسا ہی دکھنا چاہتا تھا جن کی وہ بات کرتا تھا۔ یہی بات نہرو صاحب پر صادر آتی ہے کہ لندن پلٹ نوجوان اور امیر ترین باپ کا بیٹا سوشلسٹ بنا اور غریبوں کی بات کی تو ان جیسا ہی لگتا تھا۔ ارب پتی باپ نے شروع میں اکلوتے بیٹے کو منع کیا کہ مت جائو سیاست میں بہت مشکل زندگی ہوگی۔
ضد پر اترے سوشلسٹ بیٹے سے تلخی کی حد تک ناشتے کی میز پر روز بحث ہوتی تھی۔ موتی لعل بیٹے کو مشکلات سے ڈراتا تھا۔ شروع میں گاندھی جی اور کانگریس تک کے خلاف ہوگیا۔ ایک دن بیٹے کو کہا پھر جیل کے فرش پر سونا ہوگا تو ابھی سی عادت ڈالو اور نہرو فرش پر سونے لگا۔ یہ کوئی الف لیلی کی کہانی نہیں ہے بلکہ سچ ہے۔
یہ الگ کہانی ہے کہ ایک دن وہی موتی لعل کانگریس کا صدر بنا تاکہ گاندھی کا مشن بڑھا سکے اور موتی لعل کا بیٹا ہو یا بیٹاں سب نے لائف اسٹائل بدلا اور سب نے انگریز کی جیل میں دن گزارے۔
مریم نواز صاحبہ جیسے لوگوں کو اگر عام انسانوں کا لیڈر اور حاکم بننے کا شوق ہوتا ہے تو پھر آپ کو عام بندے کے لیے اپنی ذاتی ٹھاٹ بھاٹ کی قربانی بھی دینی ہوتی ہے۔ یہ محض gesture ہوتا ہے کہ ہم آپ کی طرح ہیں اور آپ سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ آپ کا مذاق نہیں اڑاتے۔
اگر اپنی ذاتی دولت سے ذاتی خواہشات پوری کرنی ہیں تو پھر حاکم بننے کی خواہش پر قابو رکھیں تاکہ آپ کا رہن سہن اور ٹھاٹ بھاٹ دیکھ کر عام لوگ حسرت بھری آہیں نہ بھریں اور نہ ہی ساحر کا شعر گنگائیں
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

