سوات نہیں پہلے پاک پتن کی بات کرو

اصل ٹریجڈی یہ نہیں ہے کہ سوات میں سینکڑوں لوگوں کے سامنے اٹھارہ لوگوں کا خاندان بہہ گیا اور انہیں ریسکیو نہیں کیا جاسکا۔ اصل ٹریجڈی یہ ہے اب آپ نے اپنی عزت بچانی ہے تو پہلے آپ نے دیگر تین صوبوں کے وزیراعلی کے خلاف گفتگو کرنی ہے، ان کی حکومتی نالائقیں اں سامنے لانی ہیں خصوصا آپ نے پاکپتن ہسپتال میں بچوں کی ہلاکت پر بات کرنی ہے، پھر ہی آپ اس ڈسکہ کے خاندان کی ٹریجڈی پر بات کریں تو ہی ہم سوچیں گے واقعی وہ اتنا بڑا المیہ ہے کہ اس پر کوئی بات کی جائے؟
میں سمجھتا تھا یہ ذہنی اور نفسیاتی بیماری محض چند جذباتی مرد و خواتین تک محدود ہے جو اپنے محبوب لیڈر یا اس کی حکومت کو بھگوان کا درجہ دیے بیٹھے ہیں لیکن مجھے تو اب پتہ چلا ہے اس سوچ میں تو کافی بڑے بڑے لوگ بھی شامل ہیں۔
یہی وجہ ہے گنڈاپورا دھڑلے سے کہتا ہے کہ وہ کیا کرے اگر اس کے صوبے میں سیلاب سے تباہی ہوئی ہے اور انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ وہ اگر دو دن سے اسلام آباد بیٹھا ہے تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑا ہے۔ وہ سوات جا کر وہاں مرنے والوں کے لواحقین کو تمبو دے؟
گنڈاپور کو علم ہے اس ملک میں اس کی جماعت کے حامی ان پر سوال اٹھانے والوں کا جینا حرام کر دیں گے اور وہی ہورہا ہے کہ سوات پر بات کیوں کررہے ہو پہلے پاکپتن پر کرو۔
جو خواتین اور حضرات سوات ٹریجڈی کا ذکر کرنے پر لڑنے مرنے پر اتر آئے ہیں ان کی ذہنی حالت ملاحظہ فرمائیں۔ ان کے نزدیک گنڈپورا سرکار یا مقامی انتظامیہ کی نالائقی زیادہ مقدس ہے چاہے اٹھارہ لوگ آپ سب کی نظروں کے سامنے مارے جائیں۔
پہلے تو ان سب کی کوشش ہے مرنے والوں پر ہی سارا مدعا ڈال دیں۔ مان لیا ان کی غلطی تھی لیکن ان بے چاروں نے تو اپنی غلطی کی قیمت جان دے کر ادا کی لیکن جن کا کام ان کی جان بچانا تھا اور نہیں بچائی تو ان پر کیوں بات نہیں ہوسکتی؟
ویسے سوات کا ذکر کرنے پر ناراض ہونے والوں سے پوچھا جا سکتا ہے اگر خدانخواستہ ان کا اپنا خاندان اس حالت میں دریا کی لہروں کے درمیان پھنسا ہوا ہو اور وہ سب اپنے اپنے خوفزدہ چیختے چلاتے بچے کندھوں پر اٹھا کر دریا کے کنارے تماشہ دیکھنے والوں کو ترس بھری نظروں سے دیکھ رہے ہوں تو بھی ان کی یہی سوچ ہوگی کہ ہمیں چھوڑو پہلے پاکپتن کی بات کرو؟
ایک ٹرینڈ چلایا گیا سوات پر بات نہ کرو کیونکہ پاکپتین میں بھی تو بچے مارے گئے ہیں لہذا حساب برابر ہوگیا۔ نالائقی بمقابلہ نالائقی۔
یہ وہ شعور ہے جو اس قوم میں بانٹا گیا ہے۔ ابھی شکر کریں انگریز اس خطے پر ڈیرہ سو سال حکومت کر گیا ہے ورنہ تصور کر لیں انگریز سے پہلے یہاں ہمارے خطے میں شعور کی کیا حالت ہوگی جو یہ نہیں سمجھتےکہ سوات میں جو خاندان ڈوب گیا یا پاک پتن میں بچے جان بحق ہوئے وہ نہ عمران خان کے سگے تھے، نہ شہباز شریف نہ ہی مریم نواز کے۔ وہ سب مرنے والے آپ کے تھے یا آپ کے اردرگرد یا آپ کے ہی بچے تھے۔
ہم تو توقع رکھتے تھے کہ عمران خان کے سپورٹرز باشعور ہیں وہ ان کی غلطیوں اور نالائقیوں پر اپنی پارٹی اور لیڈروں کا کڑا حساب کریں گے کیونکہ ان کا نعرہ تھا ہم مختلف ہیں۔ تو اب ان کا مقابلہ پنجاب کی نالائقی سے ہے؟ ہم نالائق ہیں تو کیا ہوا پنجاب بھی تو نالائق ہے۔ یہ تھا وہ شعور اور تبدیلی کہ ہمارے مخالف بھی تو نالائق ہیں لہذا ہماری پارٹی پر بات نہ کرو۔
پشتو کی کہاوت ہے دوسرے کی موت محض ایک تماشہ لگتی ہے جب تک موت کا فرشتہ آپ کے سر پر نہیں پہنچ جاتا کہ چل بھائی۔