Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Rauf Klasra
  3. Sohail Warraich Banam Fiza Ali

Sohail Warraich Banam Fiza Ali

سہیل وڑائچ بنام فضا علی

سہیل وڑائچ صاحب کے حوالے سے سوشل میڈیا پر اس وقت مثبت اور نیگٹو بحث ہورہی ہے جب سے ٹی وی شو میں فضا علی صاحبہ نے ان پر میرے خیال میں نامناسب کمنٹ کیا۔ عموماََ میں ان ایشوز سے گریز کرتا ہوں لیکن اس معاملے میں ایک اپنی biased رائے ہے۔

میری رائے میں سہیل وڑائچ ایک ذہین صحافی ہیں۔ پاکستانی، ہندوستانی اور دنیا کی تاریخ، لٹریچر اور سیاست پر ان کو جو عبور ہے وہ بہت کم صحافیوں کو ہے۔ کئی اہم کتابوں کے مصنف ہیں جس سے آپ کو پاکستانی سیاست کی غلام گردش میں انقلابات، سازشوں اور پاور گیم کی سمجھ آتی ہے۔

ان کے پاس اندرونی خبریں ہوتی ہیں۔ وہ برسوں سے سیاسی رپورٹنگ کررہے ہیں، سیاسی شوز کررہے ہیں۔ ان کا سیاستدانوں سے ملنا بہت ضروری رہتا ہے تاکہ وہ سیاسی خبریں لے سکیں۔ سیاسی رپورٹر سیاستدانوں سے روابط نہیں رکھے گا تو سیاسی خبریں کہاں سے لائے گا؟ ہمارے ہاں سمجھ لیا گیا ہے کہ جو سیاستدانوں خصوصاََ ہماری سیاسی رائے کے مخالف سیاستدان سے ملتا ہے وہ کرپٹ ہے اور جو ہمارے پسند کے لیڈر سے ملتا ہے وہ بہت ایماندار ہے۔ وہی بات کہ لیٹرا میری مرضی کا۔

سہیل وڑائچ کے کریڈٹ پر ہزاروں مضامین، بریکنگ اسٹوریز، کالمز اور شاندار تحریریں ہیں۔ اگر اردو میں اس وقت کوئی سیاسی تجزیہ نگار ہیں جو سیاست کو سمجھ کر لکھتے ہیں تو وہ سہیل وڑائچ اور نصرت جاوید ہیں۔

سہیل وڑائچ کا اپنا ایک دھیما اور سلجھا ہوا خوبصورت انداز ہے اور وہ اپنی گفتگو میں کسی کے بارے سخت الفاظ یا شاؤٹ نہیں کرتے لیکن بات اور تجزیے میں جان ہوتی ہے۔ آج کے شورشرابے اور ماردھاڑ کے دور میں وہ دھیمے لہجے میں بھی اچھی گفتگو کرتے ہیں جب کہ پوری قوم کا مزاج ایسا بن چکا ہے یا بنا دیا گیا ہے کہ وہ جب تک کسی اینکر یا وی لاگر یا ٹیوبر کو منہ سے آگ اگلتے یا گالیاں دیتے نہ سن لیں وہ بندہ اسے صحافی نہیں لگتا بلکہ اسے لفافہ لگتا ہے۔

سہیل وڑائچ نے اس گالی گلوچ برئیگیڈ ٹرینڈ کو توڑا کہ شاؤٹ کرکے تجزیہ کرنا ہے اور انہوں نے مہذب انداز اور پروفیشنل انداز میں اپنا تجزیہ یا خبر دینی شروع کی۔

میں سمجھتا ہوں جتنے مشکل سوالات سہیل وڑائچ نے اپنے پروگرام ایک دن جیو کے ساتھ میں بڑے بڑے سیاستدانوں اور دیگر اہم لوگوں سے پوچھے ہیں وہ شاید کوئی اور پوچھتا تو بہت بڑا مسلہ کھڑا ہوتا۔ سہیل وڑائچ نے ہم سب صحافیوں کو ایک نئی راہ دکھائی کہ مشکل سے مشکل سوال بھی پوچھا جاسکتا ہے بس اپنا لہجہ زرا تمیز دار اور میٹھا رکھیں۔ میں نے خود سہیل وڑائچ کے انداز میں خود کو دھیما کرنے کی کوشش کی کہ بات کرتے وقت چلانے کی کیا ضرورت ہے۔

مجھے یاد ہے سہیل وڑائچ نے الطاف حسین سے ان کی دہشت کے عروج پر بڑے سکون سے نازیہ حسن کے بارے ایک حساس سوال پوچھ لیا تھا۔ میں شرطیہ کہتا ہوں پاکستان کا کوئی اور بڑے سے بڑا پھنے خان صحافی اس وقت یہ جرات کیا سوچ تک نہیں سکتا تھا۔

وڑائچ صاحب سے آپ لاکھ اختلاف کر سکتے ہیں لیکن ان کے صحافتی قد کاٹھ سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ وہ بہت اچھا لکھتے اور اچھا بولتے ہیں۔ آپ نے سیاسی طوفانوں کا اندازہ لگانا ہو تو سہیل وڑائچ کو سنا اور پڑھا کریں۔ میں کم از کم ان کا مستقل قاری اور سامع ہوں۔ فضا صاحبہ کو ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا۔ دھوبی/واش روم صفائی کرنے میں بھی کوئی برائی نہیں۔ مجھے اگر خود زندگی میں دھوبی/واش روم کا کام کرنا پڑتا تو پوری محنت اور محبت سے کرتا۔ لندن قیام دوران گھر پریہ سب کچھ کرتے تھے۔

ہمارے ہاں جب تک ہم اپنے سے زرا اونچائی پر بیٹھے بندے جسے ہم ناپسند کرتے ہوں اسے گالی نہ دیں یا سرعام بے عزت نہ کریں تو ہمیں سکون نہیں ملتا۔ ہم اپنی عمر بھر کی محرومیوں اور ناکامیوں کا بدلہ کسی کامیاب انسان کو گالی دے کر نکالتے ہیں۔

یہی حسد ہے جس کے شر سے قران پاک میں پناہ مانگی گئی ہے۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan