شعیب، میں اور لندن
لندن سات برس بعد آنا ہوا ہے۔ شعیب بٹھل سے 1991 میں ملتان یونیورسٹی میں پہلے دن بس سے اترتے ہی دوستی ہوئی جو بتیس برس کا فاصلہ طے کر آئی ہے۔ آج کل لندن شعیب کے گھر رات کو ہم دونوں اکھٹے بیٹھتے ہیں تو کتنی یادیں حملہ آور ہوتی ہیں۔ شعیب اور میں گھنٹوں باتیں کرتے رہے۔ شعیب کے بچے ہماری باتیں سن رہے تھے ان سب کے منہ ہماری زندگی کے واقعات سن کر کھلے ہوئے تھے۔
کبھی باتیں کرتے کرتے ہم قہقے لگا لگا کر بے حال ہوئے تو کہیں آنسو نکل آئے۔ ملتان اور لاہور کے دوستوں کی مہربانیاں یاد آئیں۔ یقین ہی نہیں آتا کہ یہ ہم ہی تھے جو اتنے گرم سرد موسموں کا سفر طے کرکے یہاں تک پہنچے ہیں۔ بہت سارے یونیورسٹی دوستوں کو یاد کیا۔ اپنے کلاس فیلوز کا ذکر کرتے رہے۔ ملتان یونیورسٹی کے ابوبکر ہال دوستوں کو یاد کیا جن سے بہت یادیں وابستہ ہیں۔ ابوبکر ہال اور عمر ہال کے درمیان واقع کنٹین کے پندرہ سالہ لڑکے منظور کی مہربانیاں یاد آئیں۔ بلال ڈیڈی کی جیب سے جس طرح ہم پیسے نکلواتے تھے اس پر کتنی دیر ہنستے رہے۔
1996 میں لاہور میں جب ہم دونوں دربدر پھرتے تھے اس وقت لاہور ریلوے اسٹیشن کے اس دس بارہ سالہ بچے کو یاد کیا جس نے ہماری شکلوں پر بیروزگاری کی وجہ سے برستی معصومیت یا مظلومیت دیکھ کر صبح صبح نہاری، پائے اور لسی کا زبردست ناشتہ کرانے بعد ان سب کا بل صرف دس روپے بنا کر ڈھابےکے مالک کو بتایا تھا کیونکہ ہماری جیب میں صرف دس روپے ہی تھے۔
اس مالک نے بچے سے پوچھا انہوں نے کیا کھایا تھا۔ بڑے اعتماد سے اس بچے نے جواب دیا تھا ان سے دس روپے لے لیں۔ دو نان اور ایک چھولے کی پلیٹ۔۔
شعیب کی چھوٹی بیٹی بولی تو آپ نے اس بچے کو کبھی تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔
ہم دونوں چپ رہے۔ ہم خود جب زندگی کے ایک طویل عذاب جھیل کر باہر نکلے اور کچھ سیٹل ہوئے تو اس بچے کو ڈھونڈنے میں بہت دیر ہوچکی تھی۔
ڈھابے کا وہ رحم دل بچہ آج شاید چالیس برس کا ہوگا جسے میں نے کہا تھا یار نہاری پائے کھانے کا دل کررہا ہے لیکن جیب میں صرف دس روپے ہیں لہذا سب چھوڑو اور چھولے کی ایک پلیٹ اور دو نان لے آئو۔
وہ بھاگ کر گرما گرما نہاری اور پائے، گرم نان اور دو لسی کے گلاس لے آیا تھا اور ان سب کا بل دس روپے ہی بنایا تھا۔