شفیق احمد
یہ جناب شفیق احمد صاحب ہیں المعروف غزالی۔ ایک ہی عشق فرمایا۔ معشوق نہ ملی تو نام ساتھ غزالی لگا لیا (باقی خود سمجھ جائیں)۔
سال 1985 تھا۔ میں نے کوٹ سلطان سکول سے مڈل پاس کیا تھا۔ میرے سلیم بھائی اس وقت کروڑ شہر میں یونائیڈ بنک میں جاب کرتے تھے۔ کروڑ شہر ہمارے گائوں سے چالیس پچاس کلو میٹر دور تھا۔ یوں میں بس/ویگن پر آنے جانے میں روزانہ تقریبا نوے کلومیٹر سفر کرتا تھا۔ صبح چھ بجے اٹھ کر شام چھ بجے گھر لوٹتا تھا۔ سلیم بھائی اکثر سکوٹر پر لیہ ساتھ لے جاتے۔ وہاں سے ہم دونوں بھائی ویگن پر کروڑ پہنچتے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کبھی سکول سے لیٹ ہوا ہوں۔ نو بجنے سے دس منٹ پہلے میں سکول کلاس میں ہوتا تھا۔
میری وجہ سے میرے کروڑ شہر کے کلاس فیلوز کو کلاس ٹیچر چوہدری حسن صاحب سے کٹ پڑتی تھی جو سو نو بجے کلاس میں داخل ہوتے کہ رئوف چالیس پچاس کلومیٹر کرکے نو بجے سے پہلے پہنچ جاتا ہے اور تم لوگ شہر سے سکول جو چند منٹ کا سفر ہے وہ بھی لیٹ آتے ہو۔ اس وقت کروڑ سکول کے ہیڈماسٹر حسن راں صاحب تھے۔ کیا کمال کے ایڈمنسٹریٹر تھے۔ انہوں نے ہی سکول کا نام بنایا تھا۔ ڈسپلن کے پابند۔
اس سکول کے اچھے نام کی وجہ سے سلیم بھائی نے مجھے وہاں داخلہ کرایا۔ میں سمجھتا ہوں مجھے سفر کی تکلیف تو بہت ہوئی لیکن ان دو سالوں نے میرے تعلیمی کیرئیر کو نئی راہ دکھا دی۔ اگر وہاں نہ پڑھتا تو شاید آگے نہ بڑھ پاتا۔ چوہدری حسن صاحب (ریاضی/انگریزی)، ارشاد سرگانی (اردو)، فخر جہاں صاحب (بیالوجی) منیر سہیڑ صاحب (فزکس)، رانا مصائب صاحب (کیمسٹری)، قاری امین (اسلامیات)، استاد طارق صاحب (مطالعہ پاکستان) جیسے استادوں نے ہمیں نکھار دیا۔ فزیکل ٹریننگ انسٹرکٹر عمر حیات نیازی صاحب کا اپنا جاہ و جلال تھا۔ پورا سکول نیازی صاحب کی مونچھوں اور میانوالی والی گرجدار آواز سے ڈرتا تھا۔
جب پہلے دن سلیم بھائی نے مجھے اس سکول کی نویں کلاس کے کمرے میں حسن راں صاحب کے ساتھ لے کر چھوڑا تو میں اپنا بیگ لے کر ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ پوری کلاس مجھے حیرت سے دیکھ رہی تھی لیکن میرے قریب کوئی نہ آیا۔ کلاس کا پہلا لڑکا جو چلتا پھرتا نظر آیا تھا وہ یہی شفیق غزالی تھا اور پھر وہیں سے عمر بھر کی دوستی ہوئی اور ہم بینچ پر دو سال اکھٹے گزارے۔
غزالی پچھلے دنوں اسلام آباد آیا ہوا تھا۔ مجھے یاد دلانے لگا کہ تمہاری وجہ سے استاد طارق نے مجھے اور اسلم صدیقی کو مارا تھا غلطی تمہاری تھی۔ تمہیں انہوں نے کچھ نہیں کہا تھا۔ پوچھنے لگا کیا وجہ تھی تمہیں نہیں مارا؟
میں نے مذاقا کہا غزالی تمہیں چالیس سال بعد بھی یاد ہے؟ غزالی بندے کی کوئی پرسنلٹی ہوتی بھی ہوتی ہے۔ شاید میری پرسنلٹی کی وجہ سے بچت ہوگئی۔ تم پرسنلٹی اور حرکتوں کی وجہ سے ہر استاد سے مار کھاتے تھے اور غزالی شرما گیا۔