صوابی اور مردان میں دس ہزار کی شرط کون جیتا؟

میرے پاس گھر پر صوابی اور مردان سے تعلق رکھنے والے دو نوجوان کام کرتے ہیں۔ محنتی اور ایماندار۔ دونوں نوجوان ایک دوسرے کے کزن ہیں (پھوپھی زاد)۔
پختونوں کی سب سے اچھی بات ہے کہ اگر گائوں کا ایک لڑکا یا بندہ کسی شہر میں جا کر سیٹ ہو جائے تو وہ پھر اس کی کوشش ہوگی کہ وہ پورے گائوں کو اپنے ساتھ ایڈجسٹ کرائے۔ یہی صورت حال سرکاری دفاتر میں بھی ہے کہ پختون ایک دوسرے کی نوکری دلوانے میں مدد کرتے ہیں۔ قران میں بھی یہی لکھا ہے کہ رشتہ داروں کا پہلے خیال رکھا کرو۔ میں اسے بڑی خوبی سمجھتا ہوں ورنہ رشتہ دار تو کسی دوسرے کو ترقی کرتے نہیں دیکھ سکتے اور جو ترقی کر جائیں وہ مڑ کر پیچھے نہیں دیکھتے کہ کون سا رشتہ دار کس مشکل میں ہے۔
وہ اپنی ترقی میں خوش رہتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی اپنے سے کم تعلیم یافتہ یا دیہاتی رشتہ داروں کے بچوں سے ملنے سے بھی گریز کرتے ہیں (خیر اس کی کئی وجوہات ہیں کچھ جائز اور کچھ شاید جائز نہیں ہوں گی)۔ اس طرح رشتہ دار بھی کوشش کرتے ہیں کوئی ان سے آگے بڑھ گیا ہی تو اس کو ہر قسمی نقصان پہنچانے کی کوشش کریں۔ لیکن پختون اس معاملے میں مجھے دوسروں سے کچھ بہتر لگتے ہیں۔
خیر ثناء اللہ بھی خیبرپختونوا سے ہے اور چند برسوں سے ہمارے ہاں گھر کام کرتا ہے۔ اس کے ساتھ اب اس کا کزن ذیشان بھی ہوتا ہے۔ دونوں کا خیال رکھا جاتا ہے ہمارے گھر۔ پوری عزت احترام۔ کبھی کبھار ان سے گپ شپ بھی لگتی رہتی ہے۔
کل ہمارے بہاولپور سے تعلق رکھنے والے مجاہد نے مجھے ہنس کر کہا آپ کو پتہ ہے کل ثناء اللہ نے اپنے کزن سے آپ کی وجہ سے دس ہزار روپے کی شرط جیتی ہے۔
میں کچھ حیران ہوا کہ مجھ پر دونوں کزنز نے کیا شرط لگا لی تھی اور وہ بھی دس ہزار کی؟ ہم تو بچپن میں پچاس پیسے کی اٹھنی یا ایک روپے سے زیادہ شرط سوچ ہی نہیں سکتے تھے اور یہاں صوابی اور مردان کے دو کزنز نے دس ہزار کی شرط لگا لی۔
مجاہد سے پتہ چلا کل رات دونوں کزنز گھر پر بیٹھے تھے تو ذیشان نے اچانک کہا صاحب سگریٹ پیتا ہے۔
ثناء اللہ نے کہا نہیں صاحب سگریٹ نہیں پیتا۔
ذیشان نے کہا نہیں وہ پیتا ہے۔
ثناء اللہ ڈٹ گیا کہ صاحب نہیں پیتا۔
لو جی دونوں کزنز نے شرط لگا لی۔
ذیشان نے کہا اس نے آج صبح خود گھر کے لان میں کرسی میز کے نیچے تین چار سگریٹ کے ٹکڑے دیکھے ہیں۔
صبح ہونے کا انتظار کون کرے۔ لہذا ثناء اللہ نے مجاہد کو رات کو فون کیا کہ اسے علم ہوگا کہ سگریٹ پیتا ہوں یا نہیں۔ ذیشان نے کہا زرا سپیکر پر کرو تاکہ یہ نہ ہو ثناء اللہ کچھ اور نہ بتائے سن کر۔
مجاہد نے انہیں بتایا کہ نہیں رئوف صاحب سگریٹ نہیں پیتے۔ ثناء اللہ نے کہا میں نے یہی بات ذیشان کو بتائی تھی کہ مجھے پانچ چھ سال ہوگئے ہیں انہیں کبھی سگریٹ پیتے نہیں دیکھا۔
اب ذیشان سخت حیران۔ اس نے کہا اس نے خود آج صبح سگریٹ کے ٹوٹے کرسی میز کے نیچے دیکھے تھے۔
ثناء اللہ نے کہا وہ ان کے دوست آتے ہیں تو ان میں سے کسی نے پی ہوگی۔
آج صبح میں نے ثناء اللہ سے پوچھا تو کہتا ہے جی شرط جیتی ہے۔
میں نے کہا یار اس غریب کے بچے نے کیوں شرط لگا لی اور وہ بھی دس ہزار کی۔
اچانک میں نے سنجیدہ منہ بنا کر کہا ثناء اللہ اب کیونکہ آپ میری وجہ سے شرط جیتے ہو لہذا اس میں پانچ ہزار میرے بنتے ہیں۔ تصور کرو اگر میں سگریٹ پیتا ہوتا تو آپ شرط ہار جاتے۔ شرط جیتنے میں آپ سے زیادہ ہاتھ میرا ہے۔
اب وہ حیرانی سے کھڑا مجھے دیکھتے ہوئے یہ بات سمجھنے کی سر کھجاتے کوشش کررہا ہے کہ شرط اس نے اپنے کزن سے جیتی تھی تو میرا اس میں کہاں سے کریڈٹ نکل آیا ہے۔

