صفدر بھائی
جن کتابوں پر یہ کتاب جونا گڑھ کا قاضی، دکن کا مولوی لکھی گئی ہے ان میں سے کئی انہوں نے لندن کی پرانی نئی بک شاپس سے ڈھونڈ کر مجھے دی ہیں۔ لندن رہتے ہیں۔ ملتان اور ملتانیوں کی محبت انہیں ہر سال دو تین دفعہ کھینچ لاتی ہے۔ آپ دنیا کا کوئی کام ان کے ذمے لگا دیں یہ ناں نہیں کرتے۔ انہیں آپ کہیں صفدر بھائی چاند تارے توڑ کر لا دیں۔ یہ کہیں گے۔۔ ہاں ہاں کیوں نہیں ضرور رئوف بھائی۔ آسمان تک ہاتھ بے شک نہ پہنچے لیکن پھر بھی یہ دو تین چھلانگیں آسمان کی طرف ضرور لگائیں گے کہ کیا پتہ دو تین تارے ہاتھ میں آ ہی جائیں۔
ڈاکٹر انوار احمد صاحب نے انہیں ملتان کے ایمرسن کالج کے بانی سابق ڈپٹی کمشنر ملتان اور گورنر پبجاب سر ایمرسن کی فیملی ڈھونڈنے کا پراجیکٹ دیا تو انہوں نے ان کے گرینڈ چلڈرن کو برطانیہ میں پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالا اور کیا کیا خوبصورت کہانیوں نے جنم لیا۔
لندن جائوں تو ہم دونوں بک اسٹورز پر مصروف رہتے ہیں اور بہت پیدل چلتے ہیں۔ ان کی محفل میں آپ بور نہیں ہوسکتے۔ ان سے بہتر سستی اور اچھی کتاب آن لائن کوئی نہیں ڈھونڈ سکتا۔ انہوں نے جتنی شاندار کتب میرے لیے ڈھونڈی ہیں وہ اپنی جگہ کمال ہے۔
لندن کا ظالم موسم ہو، برستی بارش میں طویل واک، ٹریفلگر اسکوائر میں واٹر اسٹون بک اسٹور میں کیفے کی گرم کافی اور ساتھ میں صفدر بھائی کی دنیا کے ہر موضوع پر پرجوش کمنٹری چل رہی ہو۔۔
ایک دفعہ تو ٹریفلگر اسکوائر سے پیدل ہائیڈ پارک سے ہوتے ماربل آرچ، ایجوائے روڈ سے کوئینز پارک میں گھر تک کتابوں کا بنڈل اٹھائے واک کی۔ راستے میں دونوں نے عقلمندی کی کہ دو تین بھاری بھرکم ہندوانے بھی خرید لیے جو مجھے بہت پسند ہیں۔ ایک ہمارا اپنا وزن، پھر کتابوں کا وزن اور اوپر سے ہندوانوں watermelon کا بوجھ اور ہم دونوں (عقل سے) پیدل انہیں اٹھائے چلتے رہے۔ ایک جگہ تو وہ حالت ہوئی کہ نہ ہندوانے پھینک سکتے تھے کہ بہت مہنگے ملتے ہیں اور نہ اٹھا کر چل سکتے تھے۔ پچھتاتے بھی رہے اور چلتے بھی رہے۔
لیکن وہی بات کہ کسی نے پوچھا تھا کہ سفر کیسا رہا تو بندے اس نے جواب دیا تھا کمپنی خوبصورت تھی لہذا سفر انجوائے کیا۔
اب بھی ملتان سے اس موسم میں میرے لیے ہندوانہ لانا نہیں بھولے۔ ملتان میں جس ریڑھی والے سے خریدا تھا اس نے ضمانت دی تھی بہت شاندار ہندوانہ نکلے گا۔ نہ نکلے تو ملتان واپس آکر پیسے واپس لے لیں۔ رات ہندوانہ کاٹا تو خراب نکلا۔ آج دوپہر ان کی لندن واپسی کی فلائٹ تھی۔ لیکن وہ فلائٹ چھوڑ کر ملتان نکل گئے ہیں کہ اس ہندوانے بیچنے والے سے اس کے پورے پیسے ریکور کریں گے۔ لندن کی خیر ہے پھر چلے جائیں گے پہلے ہندوانہ بیچنے والے سے ریکوری کر لیں جس کا اس نے انہیں حلف اٹھا کر وعدہ کیا تھا۔
شکیلہ باجی روکتی رہ گئیں کہ صفدر صاحب جانے دیں۔ بولے ناں بھائی۔ ہن نہیں۔