سچی خبر کی تردید آئے گی

چلیں شکر ہے آئی ایس پی آر کی سہیل وڑائچ کا کالم چھپنے کے ایک ہفتے بعد اس روز تردید آگئی جس دن عمران خان کی سپریم کورٹ نے ضمانت منظور کر لی۔
حیرانی ہوتی ہے لوگوں کے اندر کسی کالم نگار یا لکھاری کے لیے کتنی نفرت بھری ہوتی ہے کہ سب موقع کی تاڑ میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ کوئی تھوڑا سا بھی سلپ ہو تو وہ تابڑ توڑ حملے شروع کریں۔ تبرے پڑھیں۔ گھٹیا باتیں کریں۔ بازاری جملے اچھال دیں اور اپنی ساری ناکامیوں کا بدلہ فیس بک پوسٹ اور اس بندے پر نکال دیں جو ان سے چند قدم آگے بڑھ گیا ہے یا زیادہ نام ہے یا زیادہ کما رہاہے یا زیادہ مشہور ہے یا کبھی اس نے ان کے میسج کا جواب نہ دیا تھا یا اٹھ کر نہ ملا یا گرم جوشی سے نہ ملا تھا یاکسی بڑی گاڑی سے اتر رہا تھا۔
سہیل وڑرائچ کے خلاف جتنا لکھا جارہا ہے حیران ہوں اگریہ سب ان لوگوں کے اندر رہ جاتا تو بہت ساروں کا تو آج رات گھٹن سے دم گھٹ جاتا۔ اچھا ہوا ان سب کا کھتارسس ہوگیا۔ آج رات سکون کی نیند سوئیں گے سب۔۔
مجھے تیس سال سے زائد صحافت میں ہوگئے ہیں اور پہلے دن سے رپورٹنگ کی ہے اور آج بھی کرتا ہوں۔ میرا تجربہ کہتا ہے ایسی بڑی خبروں کی ہمیشہ تردید کی جاتی ہے۔ یہ خبریں یا کالم جھوٹے نہیں ہوتے بلکہ جن کے بارے ہوتی ہیں وہ کبھی کبھار اپنے کہے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے کیونکہ وہ طاقتور ہوتے ہیں لہذا وہ تردید افورڈ کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی صحافیوں پر ہمیشہ سے تبرہ ہوتا آیا ہے خصوصا اگروہ آپ کے پسند کے لیٹرے کے ہاتھ پربیت کرنے سے انکاری ہے۔
ایک واقعہ سن لیں۔ مجھے یاد ہے میں 1998 میں ڈان اسلام آباد میں رپورٹر تھا۔ میں نیا نیا ملتان سے آیا تھا۔ میں نے کچھ دن بعد تگڑے سکینڈلز فائل کرنے شروع کیے تو میری خبروں کی روز حکومتی تردید آنے لگی کہ یہ خبریں جھوٹی ہیں۔
میں بڑا پریشان ہوا کہ ابھی یہاں نیا ہوں۔ ڈان میں لیڈ چھپی اسٹوریز کی تردید کا مطلب ہے میری نوکری سے چھٹی اور میرا کیرئر ختم۔ میں ایک دن ڈرتے ڈرتے اپنے ایڈیٹر ضیاء الدین صاحب کے پاس وہ سب سرکاری سمریاں اور دستاویزات لے کر گیا جو خبروں کے ثبوت تھے جن کے بارے حکومت دعوی کررہی تھی کہ یہ جھوٹی خبریں ہیں۔
مجھے خطرہ تھا کہ ضیاء الدین نہ سمجھ لیں میں جھوٹی خبریں دے رہا ہوں اور وہ بھی ڈان کو۔
ضیاء صاحب کو میں نے کہا سر میری خبروں کی تردید آرہی ہے سوچا چیک کرادوں کہ میرے پاس سب ثبوت موجود ہیں۔
ضیاء صاحب کا جواب مجھے آج تک یاد ہے بولے رئوف تردید بھی اس رپورٹر کی آتی ہے جس کی خبر سچی ہوتی ہے۔ جھوٹی خبریں بھلا کب کس کو نقصان دیتی ہیں۔ جھوٹی خبروں کی تردید کوئی نہیں کرتا۔ تم اپنا کام جاری رکھو۔ جو بندہ کام کرتا ہے وہ سب کو چبھتا ہے۔
ضیاء الدین صاحب کے اس ایک جملے نے میری سوچ کا زاویہ بدل دیا اور آنے والے دنوں میں مسلسل APNS تین بیسٹ رپورٹر آف آئر کے ایوارڈز جیتے جس کا انعام ایک ایک لاکھ روپے کیش تھا۔
صحافت میں یہی بات دیکھی کہ جتنی بڑی اور سچی خبر ہوگی اتنی ہی بڑی سرکاری تردید آئے گی۔ جھوٹی خبروں کو کوئی سیریس نہیں لیتا کہ وہ آپ کو ہرٹ نہیں کرتیں۔

