سالگرہ مبارک
مجھے برتھ ڈے منانا کا کبھی شوق نہیں رہا۔ یوں کہہ لیں shyness محسوس ہوتی ہے۔ گھر میں مہد ہمیشہ اہمتام کرتا ہے۔ اس دفعہ وہ بھی کیک لایا تو کہا یار رکھ دو دیکھتے ہیں۔ خیر دفتر میں ٹیم ممبران نے زبردستی کیک کٹوا دیا۔
شفیق لغاری سے لیہ کالج میں 1987 سے دعا سلام ہوئی پھر 1991 میں ملتان یونیورسٹی ہوسٹل میں اکٹھے ہوئے۔ وہاں اپنا ایک دوستانہ گینگ تھا جس میں شعیب بٹھل، شفیق لغاری، جہانگیر بھٹہ، ناصر تھیم، ناصر جعفری، بلال ڈیڈی اور اعجاز نیازی شامل تھے۔ شاہد مصطفے علاوہ سجاد بری بھی آتے جاتے گپ شپ میں شامل ہو جاتے۔ ویسے تو دعا سلام سب سے تھی لیکن چوبیس گھنٹے ہم یہ چھ سات دوست اکھٹے ہوتے۔ ہر وقت بکواس چل رہی ہوتی۔ کسی کو بے عزت کر دو یا خود ہو لو۔ نیوٹرل آپ نہیں رہ سکتے تھے۔
شعیب اور میں انگریزی ڈیپارٹمنٹ سے تو باقی شعبہ اردو میں ڈاکٹر انوار احمد صاحب کے شاگرد۔ خیر شفیق لغاری کی اپنی شان تھی۔ بہت ذہین اور بحث و مباحثہ میں سب سے آگے۔ پڑھا لکھا۔ حس مزاح تو اس پر بس تھی۔ زبان تلوار کی طرح چلتی تھی۔ میں اسے کہتا دماغ کو سلو رکھا کر کسی دن الٹ جائے گا۔
میں اسے اکثر ملتان یونیورسٹی میں کہتا تھا لغاری تیری زبان میں اتنا زہر بھرا ہوا ہے کہ سانپ بھی تجھ سے refill کرانے کے لیے ہوسٹل کے باہر رات کو کھیتوں میں لمبی قطار لگاتے ہیں۔ جہانگیر بھٹہ کے قہقے پوری یونیورسٹی سنتی تھی۔ اعجاز نیازی ہنسنا شروع کرتا تو پھر ہم سب مل کر اس کی منت کرتے کہ یار اب بس کر دے۔ نیازی کا الگ ہی انداز تھا کہ جب کسی مذاق پر ہم سب قہقہ لگاتے تو وہ اپنا منہ دیوار کی طرف کرکے ہنسنا شروع کرتا اور اتنا ہنستا کہ ہم خاموش ہو کر پریشان ہو جاتے کہ اب اس کی ہنسی کیسے روکیں۔
ایک سڑک حادثے میں خوبصورت گھبرو نوجوان اعجاز نیازی چل بسا یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے کچھ برس بعد۔ آج تک دل میں شدید تکلیف محسوس ہوتی ہے۔
شفیق لغاری نے مزاح پر ایک بہت اعلی کتاب لکھی ہے جس کا مسودہ پڑھ کر میں مسلسل ہنستا رہا۔ کئی برس گزر گئے اس کا مسودہ میرے پاس پڑا ہے۔ دو تین دفعہ پڑھ چکا ہوں اور ہر دفعہ انجوائے کیا۔ اس نے بھی ضد کی ہوئی ہے کہ تم اس کا دیباچہ لکھو گے تو وہ بعد میں کوئی پبلشر ڈھونڈے گا۔
میری سستی کی وجہ سے اس کی یہ اعلی شان مزاح کی کتاب رکی پڑی ہے حالانکہ مسودہ دو تین پڑھ چکا ہوں اور خاصا ہنس بھی چکا ہوں۔ لغاری نے جس انداز میں اپنے مزاحیہ کرداروں کو پیش کیا ہے اس سے یوسفی صاحب کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ لغاری پورا ایک کردار ہے۔ ایک پوری فلم ہے جس کا رائٹر، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر اور ایکٹر بھی خود ہے۔ ایک سڑک حادثے کی وجہ سے اس پر کافی جسمانی اور ذہنی اثرات ہوئے لیکن بہادری سے وہ وقت کاٹا۔
پچھلے سال بھی میری برتھ ڈے پر لغاری کیک لانا چاہتا تھا۔ مجھے فون کیا تو اس دن چھ اگست تھی۔ میں نے کہا کسی نے تمہیں غلط کہا ہے میری تو آٹھ اگست کو برتھ ڈے ہوتی ہے۔ بے چارے کا دو دن بعد آٹھ اگست کو پھر فون آیا تو اسے کہا یار یاد نہیں رہا وہ دراصل چھ اگست کو ہی تھی۔ اب تو کیک رہنے دے۔ مقصد اس کے پیسے بچانے تھے کہ وہ مزدور انسان ہے۔
لغاری نے یہ بات دل میں رکھ لی۔
اس نے پورا ایک سال انتظار کیا اور اب پرسوں چھ اگست کو کیک لے کر پہنچ گیا۔ بولا استاد پورا سال انتظار کیا ہے، اب بول برتھ ڈے کب ہے۔۔