Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Rauf Klasra
  3. Qaima Committee Baraye Qanoon Ka Ijlas

Qaima Committee Baraye Qanoon Ka Ijlas

قائمہ کمیٹی برائے قانون کا اجلاس

بدھ کے روز اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون کا اجلاس تھا۔ اب سستی دور کرکے ان اجلاسوں میں جانا شروع کیا کہ وہاں بہت کچھ سیکھنے کو مل جاتا ہے۔

پارکنگ میں گاڑی پارک کی تو وہاں ایک خوبصورت نوجوان نے پولیس کمانڈو کی یونیفارم پہن رکھی تھی۔ مجھے اس نے مسکراہٹ دی تو جوابا میں نے اسے دی (یقین کریں لندن کے اپنے کالج گولڈ اسمتھ کے دن یاد آگئے جہاں ہر کوئی آپ کو دیکھ کر مسکراہٹ دیتا تھا اور بعض دفعہ تو گوری اور حسین قسم غلط فہمی تک ہو جاتی تھی)۔

خیر اس نوجوان سے سلام دعا ہوئی تو کہنے لگا میرا تعلق مظفرگڑھ سے ہے۔ میں نے کہا آپ تو ہمارے سابق حکمران ضلع سے ہیں۔ لیہ کبھی مظفر گڑھ کی تحصیل تھی۔ اس کے لیے یہ حیران کن خبر تھی۔

خیر کمیٹی اجلاس میں گیا تو ساتھ والی کرسی پر ایک نوجوان بیٹھا تھا۔ دعا سلام ہوئی تو پتہ چلا وہ بھی مطفرگڑھ سے ہے۔ NDU میں انٹرنیشنل ریلشنز میں ماسٹر کررہا تھا۔ اب انٹرشپ پر اسمبلی میں تھا۔

میں نے اپنے تئیں سیانا بن کر کہا اچھا سبجیکٹ ہے کہ دنیا بارے پتہ چلتا ہے۔ ذہن کھلتا ہے۔ یونیورسٹی کا ایکسپوژر بہت ہے۔ لیکن ایک کام کرنا ساتھ میں کوئی نہ کوئی ہنر ضرور سیکھنا۔ مارکیٹ میں جاب بہت کم ہو رہی ہیں۔ نوکریاں ان کو ملیں گی جن کے پاس ڈگری ساتھ ہنر بھی ہوگا۔ وہ ہوں ہاں کرتا رہا۔ مجھے لگا وہ بور ہورہا ہے۔ اس عمر میں بندہ جب یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہو تو اسے لگتا ہے بس باہر نکلنے کی دیر ہے پوری دنیا پھول لے کر پائوں میں پڑنے کو تیار ہے۔

مجھے اپنا ملتان یوینورسٹی دور یاد آیا تو بھی یہی سوچ تھی جو چند ماہ بعد عقل ٹھکانے آگئی تھی۔ ہمارے سرائیکی علاقوں کے بچے اکثر آرٹس مضامین میں ہی ایف، اے، بی اے ایم اے یا ایم فل یا پی ایچ ڈی کرتے ہیں۔ دنیا بدلنے اور مارکیٹ کی ضروریات بدلنے سے ان پر فرق نہیں پڑا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے میں اپنے گائوں جائوں تو ہر پڑھا لکھا نوجوان نوکری ڈھونڈ رہا ہے ہنر کس کے پاس نہیں ہے۔

یاد آیا دس برس پہلے ہمارے ملتانی دوست ظفر آہیر نے ایک نوجوان میرے پاس بھیجا تھا کہ وہ دو دفعہ سی ایس ایس میں تحریری امتحان میں بڑے نمبرز لے کر پاس ہوا ہے لیکن اسے انٹرویو میں فیل کر دیا جاتا ہے۔ بڑا ظلم ہورہا ہے۔ کچھ لکھو بولو۔

میں نے ظفر کو کہا اسے کہیں آپ کے ریفرنس سے مجھے میسج کر دے اسے بلوا لوں گا۔ مل لوں گا۔ اس نوجوان نے جس نے سی ایس ایس تحریری میں بڑے نمبرز لیے تھے اس نے مجھے ملی جلی انگریزی بلکہ رومن انگش میں میسج بھیجا تو اس پر کچھ حیرانی ہوئی۔ میں توقع کر رہا تھا کہ وہ اچھی صاف ستھری انگریزی میں خوبصورت میسج بھیجے گا۔ ورنہ اس سے بہتر تھا کہ وہ اردو میں ہی بھیج دیتا۔

ظفر کو کہا اسے کہو مجھے مل لے۔ جب وہ نوجوان ملا تو چند منٹ بعد اندازہ ہوگیا وہ انٹرویو میں کیوں فیل ہورہا تھا۔ لیکن مجھے ظفر آہیر کو بتانے کا حوصلہ نہ پڑا کہ چلیں وہ نوجوان اس سہارے جی رہا تھا کہ ہر دفعہ اس کے ساتھ انٹرویو میں جان بوجھ کر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا دل کیوں توڑوں۔ میں کافی دیر سوچتا رہا اس کی خوش فہمی اگر دور بھی کر دوں تو شاید اب بہت دیر ہوچکی تھی۔

میں خاموش ہو کر اسے سنتا رہا کہ اب یہ نوجوان شاید بقیہ زندگی اس سوچ کے تحت سہارے گزار لے گا کہ دنیا بڑی ظالم تھی۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.

Check Also

Masjid e Aqsa Aur Deewar e Girya

By Mubashir Ali Zaidi