نئے اور پرانے بیوروکریٹ

آج ایک بیوروکریٹ سے ملاقات ہوئی جو کچھ عرصہ پہلے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ وہ motivational speakers کے سخت خلاف ہیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے لمبی گفتگو کی۔ میں بحث کے موڈ میں نہ تھا لہذا چپ رہا حالانکہ ان کے خیالات سے اتفاق نہ تھا۔
بات ٹک ٹاک ڈپٹی کمشنر مظفرگڑھ کی طرف نکل گئی تو اچانک ان کے اندر ایک نیا جوش ابھرا اور کہنے لگے پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔ کچھ بھی ہو آپ کو ڈپٹی کمشنر کی گاڑی میں اکانومسٹ، ٹائمز یا انگریزی اخبار ضرور ملتا تھا یا پھر کوئی اچھا انگریزی ناول بیک سیٹ پر پڑا ہوتا جو وہ سفر میں پڑھتے رہتے تھے۔
یاد کرنے لگے کہ جب انہوں نے سروس شروع کی تو ان کی پہلی پوسٹنگ بہاولنگر مجسڑیٹ کے طور پر ہوئی۔ طارق محمود اس وقت کمشنر بہاولپور تھے اور ضلع کا دورہ کرنا تھا۔ ڈی سی بہاولنگر نے ایک دن مجسٹریٹ صاحب کو کہا کہ ان کہ سرکاری ریسٹ ہاوس کا زرا چکر لگا لیجے گا کہ سب کچھ ٹھیک ہو۔ خیر انہوں نے ریسٹ ہاوس میں انتظام کرائے۔ اس کے بعد ڈی سی صاحب بھی تشریف لائے کہ نیا نیا مجسٹریٹ ہے لہذا چیک کر لیں سب انتظامات ٹھیک ہیں۔
خیر اگلے دن طارق محمود تشریف لائے تو ڈپٹی کمشنر اور کمشنر میں جو دیرتک گفتگو ہوئی وہ ادب، سیاست اور دیگر امور پر تھی۔
مجھے دوست کہنے لگا مجھے یاد پڑتا ہے ان دنوں وہ کوئی ناول لکھ رہے تھے۔ نام یاد نہیں وہ کافی دیر تک اس کے موضوع پر ڈی سی صاحب سے بات کرتے رہے۔
میں نے لقمہ دیا شاید آپ طارق محمود کے ناول "اللہ میگھ دے" کا ذکر کررہے ہیں۔ وہ ان کا بڑا مشہور ناول ہے اور وہ خود بھی مشرقی پاکستان میں بڑا عرصہ رہے ہیں۔
وہ دوست کہنے لگا آج کے بیوروکریٹ جب ملتے ہیں تو آپ کا کیا خیال ہے وہ کیا گفتگو کرتے ہیں۔۔ یا ان کی گاڑی میں کون سے رسائل یا ناول ملتے ہوں گے؟
میں نے کہا ممکن ہے ہاوسنگ سوسائٹیز کے نقشے اور بروشرز ہوں گے۔ وہ دور لد گیا جب پڑھے لکھے بیوروکریٹ ہوتے تھےیا جن کی گاڑی میں کوئی ناول یا اخبار یا انگریزی رسالہ نظر آجاتا تھا۔
کہنے لگے اب جب بیوروکریٹ ملتے ہیں تو ایک دوسرے سے گاڑیوں کا پوچھتے ہیں۔
میں نے کہا شاید یہ بھی پوچھتے ہوں گے شہریت لی ہے یا لینی ہے۔ کتنی جائیداد بنا لی۔ اگر شہریت نہیں لی تو میرا جاننے والا ہے اسے کہہ دیتا ہوں۔
میں نے کہا اگر آپ کے پہلے کمشنر طارق محمود تھے تو ان کی خودنوشت "دام خیال" آپ کو ضرور پڑھنی چاہیے۔
بہت خوبصورت کتاب لکھی ہےجو سنگ میل لاہور نے چھاپی ہے۔ اس میں ملتان کے علاوہ بہاولپور کی یادیں بھی کمال قلم بند کی ہیں۔ شاید ڈاکٹر ظفر الطاف کے بعد مجھے تو وہ بیوروکریٹس کی آخری نسل لگتے ہیں جو کتابیں پڑھتے بھی تھے اور ساتھ ساتھ ناول اور کہانیاں بھی لکھتے تھے۔۔ ورنہ اب تو لکھائی پڑھائی ہاوسنگ سوسائٹیز کے بروشر تک محدود ہوگئی ہے یا بقول خواجہ آصف بیرون ملک شہریتیں یا جائیدادیں بنانے کا جنون ہے۔
ایک برطانوی صحافی کی انگریزی کتاب کا جملہ یاد آیا کہ اسے لاہور کے ایک ابھرتے سیاستدان کے ڈرائنگ روم میں ایک ہی کتاب نظر آئی تھی جو فون ڈکشنری تھی۔
خبر موبائل فون نے وہ تکلف بھی ختم کر دیا۔

