ملتان کے چوہدری نیاز صاحب

کل گھر کے باہر گاڑی روکی تو وہیں ایک سرسبز لان بنایا ہوا ہے جہاں پھول اگائے ہوئے ہیں۔ فروٹ کے کچھ پودے بھی لگائے ہوئے ہیں۔ کوشش ہوتی ہے اس لان کو صاف ستھرا رکھا جائے۔ گھر سروس روڈ پر واقع ہے لہذا روزانہ لوگ وہاں سے گزرتے ہیں۔ خیر وہاں کچھ عرصہ قبل انجیر کا پودا لگایا تھا جس نے اس سال پھل دینا شروع کیا ہے۔ تازہ تازہ انجیر۔ کبھی کبھار میں خود بھی چند انجیر اتار کے صاف کرکے کھاتا ہوں۔ وہاں سے گزرتے لوگ بھی رک کر توڑ کر کھاتے ہیں۔
کل گھر کے باہر گاڑی رکی تو ایک نوجوان نظر آیا جو انجیر اتار کر کھا رہا تھا۔ میں اس کے قریب گیا تو وہ مجھے دیکھ کر کچھ ڈر سا گیا کہ شاید چوری کرتے پکڑا گیا تھا۔ میں نے پیار سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا نہیں نہیں کھاتے رہو۔ میں نے اشارہ کیا وہ زرا اوپر والی شاخوں پر کچھ پکی ہوئی انجیر ہے وہ اتار لو۔
وہ کچھ حیران ہوا۔ مجھے لگا شاید اسے بھوک لگی ہوگی۔ میں نے پوچھا گھر سے کھانا یا پانی لا دوں۔ وہ بولا نہیں نہیں بس انجیر دیکھ کر دل مچل گیا تھا۔ شاید وہ نوجوان بھی حیران ہوا ہو کہ میرا ردعمل وہی کیوں نہیں جو اس موقع پر عام لوگوں کا ہوتا ہے کہ اس بندے کو جا کر برا بھلا کہیں کہ وہ پھل توڑ رہا تھا۔
مجھے ان مواقع پر برسوں پہلے ملتان کا ایک واقعہ ہمیشہ مجھے یاد آجاتا ہے۔
میرے پیارے ملتانی دوست سعود نیاز کے والد چوہدری نیاز صاحب کمال کے انسان دوست تھے۔ مجھے پیار کرتے تھے۔ ڈیرہ اڈا ملتان پر ان کا ہنڈا کا شو روم تھا۔ ہر دوپہر سعود کو کہتے یار رئوف کو بلوائو۔ اسے کہو گھر سے کھانا آیا ہوا ہے۔ انہیں علم تھا کہ میں ملتان اکیلا رہتا تھا۔ میں انگریزی اخبار ڈان میں رپورٹر تھا تو مجھ سے سیاست اور دیگر موضوعات پر گپیں لگاتے۔ دھیمے لہجے میں بڑی پیاری پنجابی بولتے۔ ایک دوریش انسان، عاجزی اور انکساری سے بھرپور۔
ایک دن سعود نے مجھے کہا لالہ رئوف بابا سائیں کی مزے کی بات سنو۔ سردیوں کے دن تھے۔ رات کو مسجد سے نماز پڑھ کر لوٹے تو گھر کے باہر کھڑی گاڑی میں انہیں لگا کوئی اندر سے ٹیپ ریکارڈ اتارنے کی کوشش کررہا ہے۔ اسے کچھ نہیں کہا۔ گھر کے اندر سے پلاس اٹھا کر لائے اور اس نوجوان کو کہا بیٹا اس سے کھول لو۔ بعد میں گھر والوں نے کہا یہ آپ نے کیا کیا؟ بولے مجھے لگا شاید ٹیپ ریکارڈ کی ضرورت ہوگی وہ بیچ کر پوری کر لے گا۔ اسے اتارنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔
اپنے لان میں اس نوجوان کو انجیر توڑ کر کھاتے دیکھ کر چوہدری نیاز صاحب یاد آئے۔ ایک ملتانی دوریش جس کی یاد تیس برس بعد بھی دل سے نہیں اتری۔ ملتان میں بھی کیا کیا محبتیں سمیٹیں۔ کیا کیا خوبصورت پیارے لوگ ملے جنہوں نے اپنے بچوں کی طرح پیار دیا۔ چوہدری نیاز بھی ان میں سے ایک تھے، دوسرے ملتانی درویش باقر شاہ تھے۔ ملتان کے ایسے درویشوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ ملتانی مٹی میں بھی عجیب سی کشش، محبت اور مٹھاس ہے۔