مٹی اور بچے
آج جم کرنے گیا تو وہاں قریب ہی بچوں کے کھیلنے کے لیے بھی جھولے لگے ہوئے ہیں۔ پیسنہ سے شرابور جم کرکے میں وہاں سے گزرا تو بچے کھیل رہے تھے۔ ایک نوجوان ماں اپنے بچوں کو ڈانٹ رہی تھی کہ کپڑے خراب نہیں کرنے۔ ایسے جھولے نہیں لینے یا کھیلنا جہاں سے کپڑے گندے ہوں۔
میں بچوں کے معاملے میں اکثر بول پڑتا ہوں حالانکہ ایک دو دفعہ مسئلہ بھی ہوا جب مسٹر بکس پر ایک بابو اپنی ایک چھوٹی سی بچی کو مسلسل چیخ کر ڈانٹ رہا تھا۔ پوری دکان سن رہی تھی۔
میں نے کہا سر جی بچی ہے۔ بچے ایسے ہوتے ہیں۔ کیوں اس کو ڈانٹ رہے ہیں۔
وہ مجھ پر چڑھ دوڑا کہ میرے بچی ہے جو چاہے کروں۔ میں نے جواب دیا آپ پبلک پلیس پر یہ حرکت نہیں کرسکتے کہ میں جو چاہوں کروں۔ وہ دوبارہ بولنے لگا تو میں نے کہا بات سنو۔ وہ چھوٹی بچی ہے تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی کہ تم باپ ہو۔ لیکن میں تمہیں یہیں سے اٹھا کر باہر پھینک دوں گا۔ وہ ڈر کے مارے باہر نکل گیا۔
خیر میں بھی احتیاط کرتا ہوں کہ فضول نہ بات کروں۔ خیر صبر نہ ہوا تو اس خاتون کو کہا میدان میں بچے جائیں گے تو کپڑے خراب تو ہوں گے۔ ان پر پابندی لگائی گی تو وہ کھیل انجوائے نہیں کرسکیں گے۔ انہیں کپڑے خراب ہونے دیں۔
مجھے ڈاکٹر ظفر الطاف یاد آئے جو مجھے کہا کرتے تھے اپنے بچوں کے لیے کھلونے وہ ڈھونڈا کرو جو جلد ٹوٹ جائیں۔ اس سے بچوں کا aggression کم ہوتا ہے۔ اگر ایسے کھلونے خریدو گے جو نہیں ٹوٹتے تو بچوں انجوائے نہیں کریں گے اور شخصیت نہیں بنے گی۔
لندن کے دنوں میں صفدر عباس زیدی بھائی اور میں اکثر بچوں کو ان کے گھر کے قریب کوئینز پارک لے جاتے تھے تو وہاں پارک میں الگ بچوں کے لیے مٹی میں کھیلنے کے لیے جگہ تھی کہ بچے مٹی کے ساتھ مٹی ہوں۔ سب گورے اپنے بچے مٹی میں ضرور کھلاتے تھے۔ پھر ہم بھی اپنے بچے وہیں مٹی میں چھوڑ دیتے۔
ہمارے ہاں الٹا حساب ہے کہ مٹی میں کپڑے خراب نہ ہوں اور بچے کھیل بھی لیں۔
وہ خاتون مسکرائی اور بولی اچھا آپ کہتے ہیں تو منع نہیں کرتی۔
پھر وہ کچھ سوچ کر کچھ کہتے کہتے رک سی گئی۔ مجھے لگا شاید وہ کہنا چاہ رہی ہوگی کہ آپ بڑے بچوں کے ماہر نفسیات بنے پھرتے ہیں تو پھر ان بچوں کے کپڑے بھجوا دوں گی آپ دھلوا کر بھیج دیجیے گا۔