ملکہ ایران
ملکہ ایران فرح کی عمر سات آٹھ سال ہوگی جب اس کا باپ پہلی دفعہ ہسپتال گیا اور پھر کبھی واپس گھر نہ لوٹا۔ فرح کے والد ایران کے صوبہ آزربائیجان سے تعلق رکھتے تھے جس پر ایک وقت میں برطانیہ اور روس نے قبضہ کر لیا تھا اور بعد میں ایک معاہدے تحت دونوں ملکوں نے واپس ایران کو دیا۔ فرح اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی اور باپ کی بہت لاڈلی۔
اس کا باپ کسی کو بیٹی کو ہاتھ نہ لگانے دیتا تھا کہ بیمار ہوجائے گی۔ کسی کو جرات نہ تھی کہ اسے بوسہ دیتا کہ جراثیم بچے کو لگ جائیں گے۔ فرح کو ایک دن ہسپتال لے جایا گیا۔ وہاں باپ کی جگہ ہڈیوں کا ڈھانچہ رکھا تھا۔
چند دن بعد یوں لگا جیسے اس کے باپ کا وجود ہی نہیں تھا۔ ہسپتال کی وزٹ اچانک بند ہوگئیں۔ اس کی ماں، آنٹی انکل اب ہر وقت گھر پر رہتے تھے۔ گھر میں قبرستان جیسی مکمل خاموشی۔ اس نے ماں سے پوچھا اس کا باپ کہاں تھا۔ ہسپتال سے کب واپس آئے گا؟
اسے بتایا گیا وہ یورپ علاج کے لیے چلا گیا تھا۔ اس کی ایک رشتہ دار پہلے یورپ علاج کے لیے گئی ہوئی تھی لہذا فرح فورا مان گئی۔
ان دنوں یورپ علاج کے لیے ایرانی اشرافیہ ہی جا سکتی تھی لہذا فرح کو محسوس ہوا کہ اس کا باپ یورپ علاج کے لیے گیا ہوا تھا۔
دن گزرتے گئے لیکن باپ کی کوئی خبر نہ تھی۔ وہ کسی کمرے میں جاتی تو اس کی ماں روتے روتے کوئی اور موضوع چھیڑ دیتی۔ اس کی رشتہ دار خواتین ماں ساتھ ہوتیں تو آنکھوں میں آنسو ہوتے۔ فرح کو دیکھتے ہی سب نارمل ہوجاتے۔
وہ بچی حیران کہ یہ سب کیا چل رہا تھا۔ اس نے ایک دن ماں سے پوچھا بابا خط کیوں نہیں لکھتے جیسے ان کی رشتہ دار خاتون لکھتی تھی یورپ سے۔
وہ پوچھتی میرا بابا کدھر ہے؟
اس کی ماں، پھوپھی اور انکل پاس اس کے سوالات کے جوابات نہ تھے۔ سب اسے ایک ہی بات کرتے ڈارلنگ ڈونٹ وری، سب ٹھیک ہو جائے گا۔
ایک دن ماں اور پھوپپھی کو اچانک روتے پکڑ لیا تو انہوں نے کہ ان کی ایک رشتہ دار خاتون کا انتقال ہوگیا تھا وہ اس پر رو رہی تھیں۔ پھر اس گھر میں باپ کا ذکر ہونا بند ہوگیا۔
اسے سب جھوٹ بتایا گیا تھا۔ دھیرے دھیرے اسے پتہ چلنا شروع ہو چکا تھا کہ اس کا باپ مر چکا تھا۔ وہ اب کبھی گھر نہیں لوٹے گا۔ لیکن وہ اس خوبصورت خودساختہ یقین کے سہارے زندہ رہنا چاہتی تھی۔
اسے لگا اس کا باپ صرف گھر میں اسے دکھانے کے لیے زندہ تھا۔ باہر کی دنیا میں اس کا کہیں وجود نہیں تھا۔
وہ اس یقین سے جڑی امید ختم نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ اگلے دس سال تک اپنے اس یقین پر قائم رہی کہ اس کا باپ یورپ میں علاج کرا رہا تھا۔ وہ ایک دن واپس آئے گا۔
آخر سترہ سال کی عمر میں وہ پہلی دفعہ اپنے باپ کی قبر پر گئی خود کو یقین دلانے کہ وہ مر چکا تھا جس باپ کو اس نے جان بوجھ کر ایک یقین کے سہارے دس سال زندہ رکھا تھا۔ ہر وقت اسے اپنے ساتھ رکھا تھا۔
سترہ سالہ فرح وہاں کھڑی باپ کی قبر کو خاموش گیلی آنکھوں سے تادیر دیکھتی رہی۔ اسے پہلی دفعہ لگا جو باپ اب تک اس کے یقین اور خوابوں میں زندہ تھا اس باپ کو تو مٹی میں دفن ہوئے بھی دس برس گزر گئے تھے۔