ایم بی اے کی ڈگری کا بھاری پتھر

ایک دن پہلے کسی نے مجھے ایک ویڈیو کلپ بھیجا جس میں بتایا گیا تھا کہ ایک نوجوان اب MBA کرنے کے بعد ستھرا پنجاب پروگرام میں جھاڑو لے کر صفائی کی نوکری کررہا ہے۔ مجھے وہ کلپ بھیجنے والے کو مجھ سے توقع تھی کہ میں حکومت، معاشرے اور حکمرانوں پر تبرہ پڑھوں کہ ایم بی اے پاس جھاڑو لے کر نوکری کرنے پر مجبور تھے۔
میں نے کہا اس کلپ پر تبرہ حکومت یا معاشرے پر نہیں بنتا بلکہ اس نوجوان پر پڑھنا چاہئے جو ایم بی اے کے بعد جھاڑو دینے کی نوکری کررہا ہے اور ہر کوئی اس کے ساتھ ہمدردی دکھا رہا ہے۔
میرے ساتھ دوست جنید ابراہیم بیٹھے تھے مجھے سن کر فوراََ کہا یہ غلطی ہرگز نہ کرنا۔ کیوں پوری قوم کو اپنے پیچھے لگانا چاہتے ہو۔ کیوں گالیاں کھانی ہیں۔ قوم کو اس موقع پر وہی بات کرو جو وہ سننا چاہتے ہیں۔ تمہیں کیا ضرورت ہے اس موقع پر دانشور بننے کی۔
میں نے کہا کوئی دور ہوتا تھا جب ایم بی اے کا نام بہت بھاری ہوتا تھا۔ ہر کسی سے یہ بھاری پتھر نہیں اٹھایا جاتا تھا۔ یونیورسٹی میں ایم بی اے داخلہ کا مطلب تھا کہ اس بندے کا مستقبل محفوظ ہے۔ ابھی ایم بی اے کیا نہیں اور اگلے دن بنک نوکری کا لیٹر ہاتھ میں ہوگا یا کسی کمپنی میں جاب ہوگی۔
ایم بی اے، کمپیوٹر سائنس اور انگریزی ڈیپارٹمنٹ کے میرٹ سب سے زیادہ اونچے تھے اور ان میں جس کا داخلہ ہوتا تھا اس طالبعلم کو 1990 کی دہائی میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور پھر پرائیویٹ یونیورسٹی کالجز میں ہر جگہ یہ مضمون عام ہوئے۔ بھیڑ چال شروع ہوئی۔ ہر گلی محلے میں یونیورسٹی کھل گئی۔ یوں ڈگریوں کی سیل لگ گئی۔
دنیا بھر میں یونیورسٹیاں ہمیشہ بڑے شہروں میں ہوتی ہیں کہ قابلیت کا معیار وہیں ملتا تھا۔ اکیڈمک اسٹاف کا معیار بڑے شہروں میں ملتا ہے۔ چھوٹے شہروں میں اسٹاف نہ ملا تو جو بھی ملا اس سے کام چلایا اور یوں تعلیمی معیار مزید نیچے گیا۔
آج حالت یہ ہوگئی ہے کہ ایم بی اے پاس کو جھاڑو کی نوکری مل رہی ہے جس پر قوم افسردہ ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ ایم بی اے پاس ایک معمولی سا کاروبار تک نہ شروع کرسکا۔ اس سے بہتر تو پھر ریڑھی والا، دکان والا ہے جو روزانہ ہزاروں کما رہا ہے۔
اس نوجوان سے پوری ہمدردی کے باوجود کہنے پرمجبور ہوں کہ اس نوجوان نے ایم بی اے ڈگری کی بے حرمتی کی ہے کہ جس مضمون کو پڑھا تھا اسے اپنے کام نہ لاسکا۔
مجھے یاد ہے ملتان یونیورسٹی سے ایم بی اے کرنے والے کبھی شکایت کرتے تھے کہ لاہور کراچی انٹرویوز کے دوران جب پینل کو پتہ چلتا کہ انہوں ملتان یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا تھا (وہاں نیا نیا ڈیپارٹمنٹ بنا تھا) تو ان کے انٹرویو میں کامیابی کے امکانات بہت کم ہوجاتے تھے کیونکہ انہیں لگتا تھا ملتان میں اچھے پروفیسر نہیں ہوں گے۔ وہ ایم بی اے کے ساتھ انصاف نہیں کر پائے ہوں گے حالانکہ اس وقت بڑے قابل احترام پروفیسر ظفراللہ صاحب اور ڈاکٹر کرامت علی صاحب جیسے بڑے استاد پڑھاتے تھے۔
اب ہر گلی محلے میں ایم بی اے انگریزی کمپوٹر سائنس کی کلاس کھل گئی ہے۔ معیار اب ترجیح نہیں رہی۔
اگرچہ جنید مہار نے مجھے منع کیا ہے لیکن مجھے کہنے دیں کہ ایم بی اے نے نہیں بلکہ اس نوجوان نے ایم بی اے کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ یہاں گلہ ایم بی اے ڈگری کا کرنا بنتا ہے اس نوجوان سے نہ کہ وہ نوجوان گلہ کرے۔
جھاڑو پکڑنا ہرگز بری بات نہیں ہے۔ صاف ستھرا پنجاب میں جو نوجوان بچے یہ کام کررہے ہیں وہ ہم سب سے زیادہ قابل احترام ہیں۔ کوئی پروفیشن چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا ہم اسے چھوٹا یا بڑا بناتے ہیں۔

