کتابیں کیسے بیچ لیتے ہیں؟

ہفتے میں ایک دو دفعہ پرانی بکس کی دکان کا میرا چکر لگتا ہے۔ ہر دفعہ کسی نہ کسی اچھے قاری اور کتابوں کے شوقین کی بکس وہاں بکنے کے لیے آئی ہوتی ہیں۔ ان بکس کو دیکھ کر میرا دل بھی اس شہزادی کی طرح ہوجاتا ہے جو ایک جن کی قید میں تھی۔ بڑے عرصے بعد اسے ایک آدم ذاد کی شکل نظر آئی تو وہ پہلے مسکرائی اور پھر رو پڑی۔ اس آدم زاد نے مسکرانے اور رونے کی وجہ پوچھی تو بولی مسکرائی اس لیے ہوں کہ بڑی مدت بعد کسی آدم زاد کی شکل دیکھی ہے۔ روئی اس لیے ہوں کہ ابھی تھوڑی دیر بعد جن آکر تمہیں کھا جائے گا۔
میں بھی ایسے نامعلوم کتابوں کے رسیا کی ذاتی لابئیری دیکھ کر پہلے مسکراتا ہوں کہ آج اس شاندار کولیکشن سے چند بکس میرے مطلب کی بھی نکل آئیں گی۔ لیکن اگلے لحمے یہ سوچ کر اداس ہوجاتا ہوں کہ وہ نامعلوم انسان جسے ان کتابوں سے بچوں کی طرح پیار ہوگا اور انہیں اپنے بیڈروم میں قریب رکھتا ہوگا، ان کی خوشبو، لمس کو محسوس کرتا ہوگا وہ اب مرچکا ہے۔ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہا۔
اس کے بچوں نے ان کتابوں کو بیکار سمجھ کر ایک طرح سے کباڑی کے ہاتھ چند ہزار میں بیچ دیا ہوگا۔
میں نے پرانی بکس پر کھڑے نوجوان سے پوچھا اتنی شاندار بکس کہاں سے آئی ہیں؟ جس کی بھی تھیں ان کتابوں کا بکس بہت اعلی معیار تھا کیونکہ میں نے اس کیلکشن میں سے کافی بکس خریدیں۔ میں نے اس نوجوان کو کہا اتنی اعلی معیار کی بکس پہلے نہ دیکھی تھیں۔ کہاں سے آئی ہیں۔
کہنے لگا وہ صاحب یہیں اسلام آباد کے ہی تھے۔ ان کےبچے بیچ گئے ہیں۔
میں کافی دیر افسردہ کھڑا رہا کہ ان بچوں نے اپنے باپ کو ساری عمر ان کتابوں کو پڑھتے دیکھا ہوگا، انہیں اندازہ ہوگا ان کے باپ کو کتابیں اور کتابیں پڑھنے سے کتنی محبت تھی۔ کیا گھر میں موجود یہ کتابیں انہیں اپنے مرحوم باپ کی موجودگی کا احساس نہیں دلاتی ہوں گی۔ ہر کتاب پر اپنے باپ کا لمس محسوس نہیں ہوتا ہوگا؟
باپ کی جائیداد تو کسی نے اٹھا کر باہر نہیں پھینک دی، باپ کی جائیداد پیاری تھی لیکن اس کی کتابیں پیاری نہ تھیں اور وہ کتابیں اٹھا کر کوڑیوں کے مول بیچ گئے۔
میں وہ شاندار کتابیں چھانٹ کر دیکھتا رہا۔
شاید وہ انسان ایسی شاندار بکس میرے جیسے کے لیے چھوڑ گیا تھا کیونکہ اس کی اولاد اس قابل نہ تھی کہ وہ ان کتابوں کی قدر جانتی۔
میں کافی دیر وہیں دکان میں کھڑا کتابوں سے محبت کرنے والے اس خوبصورت نامعلوم انسان کے وہاں موجود ہاتھوں لمس کو محسوس کرتا رہاجس نے اتنی محبت سے وہ سب کتابیں خریدی ہوں گی، درجنوں بکس شاپ پر گھنٹوں لگا کر وہ چن کر خریدی ہوں گی، انہیں مرتے دم تک عمر بھر پڑھا ہوگا، کسی کو کتاب ادھار تک نہ دی ہوگی لیکن ان کی اولاد کے لیے وہ سب کچھ اب کچرا تھا۔