Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Rauf Klasra
  3. Haroon Ur Rasheed Ka Natamam

Haroon Ur Rasheed Ka Natamam

ہارون الرشید کا ناتمام

آج کی صبح خوبصورت رہی۔ سینٹ کی کمیٹی میں جانا تھا۔ پتہ نہیں دل نہیں کیا اور میں نے بھی خود کو مجبور نہیں کیا۔ باہر نکلا تو پرانی کتابوں کا بنڈل آیا ہوا تھا جس کا نظارہ مجھے ہمیشہ تروتازہ کر دیتا ہے۔ افضل صاحب کو ریکوسٹ کی مجھے ہیزل نٹ کافی لا دیں۔ ایک اور پیکٹ دیکھا۔

اسے کھولا تو اندر سے مشہور کالم نگار ہارون الرشید صاحب کے کالموں کا مجموعہ برآمد ہوا۔ کتاب ہمیشہ پہلے آپ کو اپنے نام اور ٹائٹل سے متاثر کرتی ہے باقی مواد کا جائزہ بعد میں لیا جاتا ہے۔

ٹائٹل واقعی خوبصورت لگا اور اس کے اوپر ٹیگ لائن منتخب تحریریں سے مجھے اجمل کمال کے شاندار آج کے ادبی رسالےکا وہ غیرمعمولی شمارہ یاد آیا جو انہوں نے گارشیا کی تحریروں سے شائع کیا تھا جس سے گارشیا پاکستان میں معتارف ہوئے تھے اور کیا شاندار تراجم شائع کیے تھے۔ بہت بڑا کام تھا اجمل کمال کا۔

ہارون صاحب کے ان کالموں کو ایک طرف رکھ کر مجھے ان کے بیٹے بلال ہارون کو داد دینی ہے جنہوں نے یہ کتاب چھاپنے کا بیڑا اٹھایا اور بڑی محنت سے ہارون صاحب کے کلاسک کالموں کا انتخاب کیا۔ ہارون صاحب جیسی نثر بھلا پاکستان میں کون لکھ سکتا ہے۔ میرے خیال میں آج کے دور میں تو شاید کوئی نہیں۔ ہارون صاحب کے یا دوست ہیں یا دشمن۔ وہ دوستوں اور دشمنوں دونوں کو نظر انداز نہیں کرتے۔ وہ دونوں کا حساب پورا کرکے گھر جاتے ہیں۔ پرواہ صرف دوستوں کی کرتے ہیں۔

میرا ہارون صاحب سے طویل تعلق رہا ہے میں نے ان کے اندر کبھی خوف یا ڈر نام کی چیز نہیں دیکھی اور یہی بات ان کی گفتگو اور تحریروں میں نظر آئی۔ وہ جو ٹھیک سمجھتے تھے وہ بیانگ دہل وہ کالموں میں بھی لکھتے تھے اور ٹی وی شوز میں بھی دھڑلے سے بولتے تھے۔

وہ پہلے لکھتے اور پھر دیکھتے کس پر لکھا ہے اور مسکرا کر اخبار کو بھیج دیتے کہ چلیں دیکھ لیں گے کیا ہوتا ہے۔ طالبان کے خلاف جتنے بے رحمانہ اور جاندار کالمز ان کی دہشت اور عروج کے دنوں میں لکھے شاید ہی کوئی دوسرا کالم نگار اتنی جرات کرسکا ہو۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم پر لکھے کالم پڑھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ کہیں خوف کا اندیشہ تک نہیں جب بڑے بڑے الطاف بھائی کی دہشت آگے پانی بھرتے تھے۔ آپ ہارون الرشید سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن انہیں نظر انداز نہیں کرسکتے۔

اس کتاب میں جو سب سے پاورفل چیز ہے وہ بلال الرشید کا پیش لفظ ہے۔ مجھے کہنے دیں ایک بیٹے نے انصاف کیا ہے۔ ہارون صاحب کا مقدمہ بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے خصوصا جنرل کیانی اور عمران خان کے حوالے سے ان کی تحریروں اور گوشہ نرمی کا۔ بلال نے بڑی خوبصورت بات لکھی ہے کہ وہ ہمارے جیسے صحافیوں یا لکھاریوں کی طرح نیوٹرل کے چکر میں نہیں پڑے۔ جو انہیں ٹھیک لگا وہی لکھا اور جو بندہ پسند آیا اس کے بارے لکھا اور کھل کر لکھا۔

مجھے یاد پڑتا ہے میں شاید لیہ کالج میں تھرڈ ایر میں تھا جب ہارون صاحب کی شہرہ آفاق کتاب "فاتح" چھپ کر آئی جو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اختر عبدالرحمن پر تھی۔ میرے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ خرید سکتا۔ اپنے بہت ہی مہربان استاد پروفیسر اور محسن ظفر حسین ظفر صاحب سے ریکوسٹ کی کہ مجھے وہ کالج روڈ پر ایک کتابوں کی دکان پر سے ایک دن کے لیے لے ادھار دیں پڑھ کر واپس کر دوں گا۔ وہ دکان کالج لابیری کے لائبیرین کے بیٹے کی تھی (شاید آج بھی وہاں ہو)۔ انہوں نے لائبیرین کو کہا۔ انہوں نے ایک شرط پر بیٹے سے لے دی کہ کل صبح واپس کرنی ہوگی۔ میں نے پوری رات لگا کر وہ کتاب پڑھ کر صبح واپس کی تھی اور ہارون صاحب کی تحریر کی طاقت سے لطف اندوز ہوا تھا۔

ہارون صاحب کے بہت ناقد ہیں اور فین بھی اور یہی چیز انہیں ممتاز کرتی ہے کہ اگر آپ کے ناقدین ہی نہیں تو زندگی بیکار ہی گزری۔

اس کتاب بارے بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے اور گاہے بگاہے لکھتا بھی رہوں گا۔ ایک دور تھا اخبارات چند بڑے کالم نگاروں بغیر نہیں چلتے تھے جس میں نذیر ناجی، عبدالقادر حسن، منو بھائی، عباس اطہر، حسن نثار اور پھر اس فہرست میں ہارون الرشید نمایاں تھے۔ عطاالحق قاسمی، ایاز امیر، اظہار الحق، سہیل وڑائچ، یاسر پیرزادہ، خالد مسعود بھی اپنی تحریروں سے سب کو متاثر کرتے ہیں۔

کسی اخبار کی کامیابی میں ان سب بڑے کالم نگاروں کا ہاتھ ہوتا تھا اور آج بھی ہے۔ ان سب کی سیاسی تحریروں کا انتظار کیا جاتا تھا۔

بہرحال بلال نے جو کاوش کی ہے اس کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ بلال نے اپنے والد کے ناقدین کے سامنے جس طرح اپنے باپ کا مقدمہ پیش کیا ہے وہ اپنی جگہ ایک کلاسک ہے۔ سیاست اور ادبی تحریروں کے باذوق قارئین کے لیے ایک خوبصورت کتاب جو پچھلے بیس تیس سال سے زائد پاکستانی تاریخ کا احاطہ کرتی ہے۔ ایک ایسی تحریریں جو آپ میں سے کئی ایک نے پہلے پڑھ رکھی ہوں گی لیکن اگر میرے جیسے بندہ جس نے ہارون صاحب کی کبھی کوئی تحریر مس نہیں کی وہ بھی نئے سرے سے گزرے ان قیامت خیز برسوں کی کہانیوں اور کرداروں میں کھویا ہوا ہے تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ کتاب اپنے اندر کتنے جہاں سموئے ہوئے ہے۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.

Check Also

Ye Jahan Ke Engine Kyun Band Kiye?

By Saqib Ali